مذهب تشیع کی ترویج و تبلیغ کے لئے کلاسز اور تحقیقی نظریات و معارف کا مرکز

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 13

❇️ * امام زمانہ (عج) کے اوصاف و خصوصیات *♦️(دوسرا حصہ)

گذشتہ کلاس میں امام زمانہ (عج)کی معرفت کے سلسلے میں بیان کیا گیا تھا کہ آپ تمام رہبران الہی کے اوصاف و کمالات اور ان کی سنّتوں کے حامل ہیں۔ آج مزید آپ کی ایک اور خصوصیت اور صفت کا ذکر کیا جارہا ہے:

🌼 مہدی آل محمد(ص) سے ہیں:

🌼 امام مہدی(عج) دور حاضر میں اللہ کی جانب سے برحق امام ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے غَیبت  میں رکھا ہے۔ آپ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن ہدایت اور رہنمائی کے تمام  کاموں کو  ڈائریکٹ یا کسی واسطے سے انجام دے رہے ہیں۔  پیغمبر اکرم ص نے غدیر کے دن جو بہت تفصیل سے خطبہ ارشاد فرمایا تھا ۔ اس خطبہ میں ہمارے موجودہ امام کو بھی یاد فرمایا تھا۔ اور آپ کے بہت سے صفات، خصوصیات کو بیان فرمایا ہے۔ آپ کی غیبت کے زمانے، آپ کے ظہور اور حکومت کےبارے میں بتایا ہے۔ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ: الہی حکومت کے لئے قیام کرنے والا مہدی(عج) ہم اہل بیت(ع) میں سے ہوگا۔ آپ فرماتے ہیں:

*"مَعاشِرَالنّاسِ، أَلا وَ إِنِّی رَسولٌ وَ عَلِی الْإِمامُ والْوَصِی مِنْ بَعْدی، وَالْأَئِمَّةُ مِنْ بَعْدِهِ وُلْدُهُ... ألا إِنَّ خاتَمَ الْأَئِمَةِ مِنَّا الْقائِمَ الْمَهْدِی"۔*

اے لوگو! جان لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور علی(ع) میرے  بعد امام اوروصی ہیں  اور اس کے بیٹے اس کے بعد امام ہیں اور جان لو کہ آخری امام مہدی قائم(عج) بھی ہم میں سے ہوگا۔

پیغمبراکرم(ص) کے مذکورہ ارشاد کی طرح اور بھی متعدد احادیث ہیں جن میں اس بات کو صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مہدی (عج) جو آخری زمانے میں ظہور فرمائیں گے اور پوری دنیا میں الہی حکومت قائم فرمائیں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھرکر ظلم و ستم کا خاتمہ فرمائیں گے وہ صرف حضرت محمد مصطفی(ص) کی نسل سے ہونگے۔ لہذا تاریخ میں یا آج اگر کسی اور خاندان سے مہدی (عج)اور آخری زمانے کے منجی و قائم کا ذکر کیا جائے تو یہ سب باتیں جھوٹی ہیں۔

نوٹ: آئندہ کلاس میں امام مہدی (عج) کے صفات اور خصوصیات کے حوالے سے مزید باتوں کا ذکر کیا جائے گا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 12

❇️ * امام زمانہ (عج) کے اوصاف و خصوصیات *♦️(پہلا حصہ)

 

گذشتہ دو کلاسوں میں امام زمانہ (عج)کی معرفت کے سلسلے میں جن چار پہلووں کا ذکر کیا گیا تھا، ان کے سلسلے میں آج سے کچھ دنوں تک کچھ اہم اوصاف اور خصوصیات کا ذکر کیا جائے گا:

* رہبران الہی کے اوصاف و کمالات کے وارث *

حضرت امام مہدی (عج)چونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آخری راہنما اور رہبر قرار پائے ہیں لہذا آپ ہی تمام گذشتہ پیغمبروں، نبیوں، اولیاء اور معصوم اماموں کے ہر اعتبار سے وارث ہیں اور آپ کی ذات میں تمام الہی رہبروں کے صفات اور سب کی خصوصیات کو جمع کیا گیا ہے۔ اور امام زمانہ(عج) کے ظہور کے ساتھ ہی ان تمام خصوصیات اور صفات کا ظہور اور ان کی واقعی شکل و صورت بھی دنیا کے سامنے ظاہر ہوگی۔ اس سلسلے میں کچھ اہم احادیث کا ذکر کیا جارہا ہے:

۱- پیغمبراکرم(ص) سے امام مہدی(عج) سے بہت سی شباہتیں بیان ہوئی ہیں۔ خود پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا کہ: مہدی(عج) میرے فرزندوں میں سے ہے۔ اس کا نام میرے نام پر ہے، اس کی کنیت میری کنیت ہے، اخلاق اور خلقت کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابے ہے۔ (مکیال المکارم، ج1، ص320)۔  اسی طرح آیا ہےکہ : پیغمبر(ص) کی طرح حضرت مہدی (عج) کی ہدایت سے امت کی ہدایت ہوگی اور سیرت پیغمبر (ص) کی  طرح حضرت مہدی(عج)کی سیرت ہوگی۔(کمال‌الدین و تمام‌النعمه، ج۲، ب۳۳، ح۴۶، صص۲۹ – ۲۸)۔

۲- امام باقر (ع) نے فرمایا: مہدی (عج)کی شباہت اپنےجد پیغمبراکرم(ص) سے یہ ہے کہ وہ شمشیر کے ساتھ قیام کریں گے اور اللہ و رسول کے دشمنوں اور ظالموں اور طاغوتوں کو قتل کریں گے اور وہ تلوار اور دشمنوں کے دلوں میں خوف کے ذریعہ مدد کئے جائیں گے اور ان کا پرچم کبھی بھی ہارکر نہیں پلٹے گا(‌ بحار الانوار، ج51، ص212؛ کمال الدین، ج1، ص327)۔

۳- امام سجاد (ع) نے فرمایا: قائم(عج) میں حضرت نوح (ع) کی سنّت یعنی وہ طولانی عمر ہے( بحارالانوار، ج۵۱، ص۲۱۷)۔

۴- امام سجاد (ع) نے فرمایاہے کہ:مہدی (عج) کی ولادت حضرت ابراہیم(ع) کی طرح لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ اورتنہائی میں ہوگی۔ (اعلام الوری، تهران،  ج1، ص322)۔

۵- امام محمد باقر (ع) نے فرمایا کہ: حضرت موسی(ع)سے مہدی (عج)کی شباہت طولانی غیبت اور ظالم حکمرانوں سے خوف (قتل کا خطرہ)ہونا ، ولادت کا پوشیدہ ہونا اور غیبت کےزمانے مین چاہنے والوں کے لئے سختی اور آزار و اذیتیں کا ہونا ہے یہاں تک کہ خداوندعالم آپ کو ظہور کی اجازت دے گا اورمددکرے گا جس کے نتیجے میں دشمنوں پر کامیابی حاصل ہوگی(بحارالانوار، ج 51، ص 212؛ کمال الدین، ج 1، ص 327)۔

۶۔  امام باقر (ع) نے فرمایا: مہدی (عج)کی شباہت حضرت عیسی(ع)سے لوگوں کا اختلاف کرنا ہے۔ حضرت عیسی (ع)کے بارے میں کچھ کہتے ہیں کہ وہ ابھی دنیا میں نہیں آئے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا سے چلے گئے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ وہ قتل کردیئےگئے ہیں اور سولی پر چڑا دیے گئے ہیں۔ (بحارالانوار،  ج 51، ص 212؛ کمال الدین، ج 1، ص 327) واضح رہے کہ امام مہدی (عج)کےبارے میں بھی اسی طرح کا اختلاف ہے کچھ لوگوں کے مطابق آپ کی ابھی ولادت نہیں ہوئی ہے۔ کچھ کے مطابق ولادت ہوگئی ہے۔

۷۔ امام باقر (ع) نے فرمایا کہ : مہدی (عج)کی شباہت حضرت یوسف سے یہ ہے کہ وہ غیبت میں رہیں گے اور بغیر پہچان کے گھومتے رہیں گے(بحار الانوار، ج 51، ص 224)۔ ایک اور مقام پر فرمایا کہ: جس طرح یوسف(ع) اور ان کے والد اور رشتہ داروں کے درمیان کم فاصلہ تھا لیکن نامعلوم رہا اسی طرح مہدی (عج)اور ان کے شیعوں کے درمیان بھی فاصلہ کم رہے گا لیکن وہ ان سے پوشیدہ رہیں گے(کمال الدین، ج1، ص 327)۔

۸۔  خداوندعالم نے جس طرح حضرت اسماعیل (ع) کی ولادت کی بشارت دی تھی اسی طرح حضرت قائم (عج)کی ولادت کی بھی بشارت دی ہے(مکیال المکارم، ج 1، ص 366) اور جس طرح اسماعیل (ع)کے لئے زمزم کا چشمہ نکالا تھا اسی طرح قائم (عج)کے لئے بھی سخت پتھر سے چشمہ جاری کرے گا۔ (بحار الانوار، ج 52، ص 351)۔

۹۔ جس طرح حضرت آدم(ع) کے خلیفہ بنائے جانے کی خبر قرآن میں دی گئی ہے(بقرہ، آیت۳۰) اسی طرح حضرت مہدی (عج)کے لئے بھی قرآن میں آیا ہے کہ: «وعَدَ اللهُ الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لِیَستخلفَنَّهُم فی الارض» اللہ کا وعدہ ہے کہ صاحبان ایمان اور نیک اعمال والوں کو زمین میں خلیفہ بنائیں گے(نور، آیت۵۵)۔روایات کے مطابق اس آیت کے مصداق حضرتمہدی(عج)اور آپ کے اصحاب ہیں جو ظہور کے وقت کہیں گے کہ  «الحمد الله الذی صدقنا وعده و اورثنا الارض» اللہ کی حمد ہے کہ اس نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا اس کو پورا کیا اور زمین کو ہماری میراث میں قرار دے دیا ہے(مکیال المکارم، ج 1، ص 249)۔

۱۰۔ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ: جس طرح حضرت صالح(ع)ایک مدت کی غیبت کے بعد قوم کے پاس آئے تو کچھ لوگ آپ کا انکار کرنے لگے تھے اسی طرح مہدی (عج)کے بارے میں بھی ہوگا۔( کمال الدین، ج 1، ص 136)۔

۱۱۔ امام سجاد(ع)نے فرمایا: حضرت ایوّب(ع) کی طرح مہدی (عج)کے لئے بھی ایک مدت تک بلاء و پریشانیوں کے بعد آسانی فراہم ہوگی(اعلام الوری، ج 1، ص 322)۔

۱۲۔ امام باقر (ع)نے فرمایا کہ: مہدی (عج)،حضرت یونس(ع) کی طرح غیبت کے بعد زیادہ عمر کے باوجود ایک جوان کی طرح لوٹیں گے(کمال الدین، ج 1، ص 327)۔

۱۳۔امام صادق (ع) نے فرمایا: حضرت مہدی (عج)جب ظہور فرمائیں گے تو حضرت داؤود (ع)کی طرح  لوگوں میں فیصلہ کریں گے اور ان کو کسی طرح کے گواہ اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوگی( روضه کافی، ص 50)۔

۱۴۔  حضرت مہدی (عج)جناب ہارون کی طرح ہونگے جس طرح وہ دور سے بھی حضرت موسی(ع) کی باتوں کو سن لیتے تھے اور حضرت موسی(ع) بھی دور سے ان کی باتوں کو سن لیتے تھے۔ (بحار الانوار، ج 51، ص 27)۔ اسی طرح امام صادق (ع) نے فرمایا کہ : جب قائم(عج) ظہور کرے گا تو اللہ تعالیٰ ہمارے شیعوں کے کانوں اور آنکھوں میں ایسی صلاحیت پیدا کردے گا کہ قائم(عج) اور ان کے درمیان کوئی بات پہونچانے والے کی ضرورت نہیں رہے گی۔وہ سیدھے ان سے بات کرے گااور وہ سنیں گے اور ان کو دیکھیں گے جبکہ سب اپنی اپنی جگہ پر رہیں گے (بحار الانوار، ج 51، ص 27)۔

نوٹ: مذکورہ روایات کے علاوہ بھی دوسری اور بھی روایات ہیں جن میں امام مہدی (عج)کی بہت سی شباہتیں اور سنتیں بیان کی گئی ہیں جو گذشتہ پیغمبروں اور اولیاء الہی میں تھیں۔ امام مہدی (عج) ان سب کے وارث ہونگے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 11

❇️ * امام زمانہ (عج) کی معرفت کے چار پہلو *♦️ (دوسرا حصہ)

 

گذشتہ کلاس میں امام زمانہ (عج) کی تاریخی اور شخصیت کے اعتبار سے معرفت و شناخت اور امام زمانہ (عج)کے صفات اور آپ کے برناموں کی معرفت و شناخت کے سلسلے میں مختصر وضاحت کی گئی ہے ۔ آج کی کلاس میں دوسرے  دو پہلوؤں کے بارے میں مختصر طور پر کچھ باتوں کو ذکر کیا جارہا ہے:

۳- مقام ولایت اور نورانیت امام مہدی عج کی معرفت حاصل کرنا۔ اس سلسلے میں حدیثوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ(عج)، حضرت رسول اکرم اور دوسرے تمام اماموں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو بھی منصب اور مقامات حاصل ہوئے ہیں وہ سب آپ کو بھی حاصل ہیں۔ بلکہ آپ کی ذات کے ذریعہ وہ تمام مقامات واضح اور مکمل طور  پر دنیا کے سامنے ظاہر ہوں گے۔ لہذ قرآن کی تفسیر  اور اس کے بیان کا مقام، حکومت الہی اور ولایت کا مقام، قضاوت اور عدالت کا مقام، تعلیم و تربیت کا مقام، ہدایت کا مقام، اولیاء الہی اور مظلوموں کے  لئے انتقام اور بدلہ لینے کا حق وغیرہ تمام الہی منصوبوں اور نورانی مقامات میں اس زمانے میں سب سے زیادہ آپ ہی کی ذات حقدار ہے اور آپ ہی ان تمام ظاہری اور نورانی مقامات کے لئے معین  ہیں۔  خلاصہ یہ ہے کہ آپ نور الہی ہیں جن کے نور سے ساری دنیا میں نورانیت اور پاکیزگی پھیل جائے گی۔

۴- امام زمانہ (عج)کی معرفت اور شناخت کے سلسلے میں چوتھا پہلو آپ کے فرامین اور آپ کی خواہشات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں خود امام زمانے کے فرامین، آپ کی حدیثوں اور آپ کی سیرت اور اخلاق اور جن باتوں کو امام چاہتے ہیں، جن کی آپ خواہش کرتے ہیں ، ان سب کے بارےمیں معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔  یعنی موجودہ غیبت کے زمانے میں ہمیں اس بات کو جاننا چاہئے کہ ہم جو امام کے منتظر ہیں، آپ کے ظہور کا انتظار کرنے والے ہیں۔ اس زمانے میں ہمارے کیا فرائض ہیں؟ ہمیں ایمان و عقائدکے لحاظ سے کیسا ہونا چاہئے؟  ہمارا عمل اور ہمارا اخلاق کس طرح کا ہونا چاہئے؟  ہمارا امام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ حدیثوں میں ایک منتظر شخص کے لئے بہت سے صفات بیان کئے گئے ہیں جن کو جاننا اور ان پر عمل کرنا ہماری گردنوں پر حقوق ہیں، ہمیں اس کا حساب کرنا چاہئے کہ ہم ان حقوق کو کس حد تک جانتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ 

غیبت کے زمانے میں ہمارا امام ہر طرح سے ہمارا خیال رکھتا ہے، ہماری آنکھوں پر پردہ ہے لیکن وہ ہمارے درمیان رہتا ہے، ہمارے گھروں اور بازاروں میں امام کی آمد و رفت رہتی ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں میں وہ ہماری مدد کرتا ہے۔ بلاؤں اور مصیبتوں کو وہ ہم سے دور کرتا ہے، ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لئے وہ ہمیشہ آمادہ رہتاہے۔ ہماری ہر پکار کا جواب دینے کے لئے تیار رہتا ہے۔ مگر ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ ہم اپنے شب و روز میں امام کے لئے کیا کرتے ہیں۔

نوٹ:

  1. مذکورہ تمام پہلوؤں اور باتوں پر توجہ رکھنا اور انہیں جاننا اور ان پر عمل کرکے اپنے رابطے کو امام زمانہ(عج) سے نزدیک کرنا اور اپنے دینی اور دنیاوی کاموں میں امام زمانہ(عج) کو شریک کرنا ہی امام زمانہ (عج)  کے سلسلے میں اعلیٰ معرفت کا ذریعہ ہے۔
  2. ان شاء اللہ آئندہ کلاسوں میں امام زمانہ (عج)کے صفات اور خصوصیات اور مقامات اور آپ کے فرامین اور مہدوی اخلاق کے حوالے سے کچھ تفصیلات کے ساتھ مطالب کو بیان کیا جائے گا۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 10

❇️ * امام زمانہ (عج) کی معرفت کے چار پہلو *♦️ (پہلا حصہ)

احادیث کی روشنی میں امام زمانہ عج کی معرفت کے لئے چار اہم مرتبے اور پہلو پائے جاتے ہیں :

۱: امام زمانہ (عج) کی تاریخی اور شخصیت کے اعتبار سے معرفت و شناخت۔

۲: امام زمانہ (عج)کے صفات اور آپ کے برناموں کی معرفت و شناخت۔

۳: امام زمانہ (عج)کے مقام ولایت اور نورانیت کی معرفت و شناخت۔

۴: امام زمانہ (عج)کے فرامین اور آپ کی خواہشات کی معرفت و شناخت۔

۱- تاریخی اور شخصیت کے اعتبار سے امام زمانہ (عج)کی معرفت کے لئے ہمیں امام کے نام ، رشتہ داروں، آپ کی پیدائش کی تاریخ، آپ کی عمر، آپ کے گھر اور رہنے کے شہراور مقام،  آپ کی غیبت کی شروع، غیبت کی اقسام، آپ کے خاص چار نائب، آپ کا ظہور، ظہور کی خصوصیات وغیرہ کے بارے میں معلومات رکھنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں گذشتہ کلاسوں میں مختصر معلومات بیان کی جاچکی ہے لہذا یہاں تکرار نہیں کیا جارہا ہے۔

۲- آپ کے صفات اور آپکے برناموں کے بارے میں معلوم حاصل کرنا؛ اس سلسلے میں ہمیں امام مہدی (عج)کی جو خصوصیات قرآن اور احادیث میں بیان کی گئی ہیں ان کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنا چاہئے۔ خاص طور پر امام کے بارے میں جو خصوصیات اور القاب  بیان ہوئے ہیں جیسے حجت خدا ہونا، خاتم الاوصیاء ہونا، منجی امت ہونا، مہدی منتظر ہونا، قائم آل محمد ہونا، صاحب الامر ہونا، عدالت قائم کرنے والا ہونا، یقیۃ اللہ ہونا، دین کو ظاہر کرنے والا ہونا، خلف صالح ہونا، وارث ہونا، صاحب زمان ہونا، مؤمّل ہونا، باسط ہونا، ثائر یعنی انقلاب برپا کرنے والا ہونا، سید ہونا، علوم الہی کا خزانہ دار ہونا، امیروں کا امیر ہونا ، تمام پیغمبروں اور اماموں کے فضائل اور کمالات کا وارث ہونا، عقل و ہوشمندی میں سب سے آگے ہونا، اللہ کی اطاعت اور بندگی میں برتر ہونا، سخی ہونا، محدث یعنی ملائکہ سے رابطہ رکھنے والا ہونا  وغیرہ جیسے بہت سے صفات اور خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ ان تمام القاب اور خصوصیات کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنے ہمیں امام کی سیرت اور آپ کے برناموں اور ظہور کے بعد کس طرح کام کریں گے ان سب کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔

نوٹ: بقیہ دو پہلوؤں  کو آئندہ کلاس میں بیان کیا جائے گا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 9

❇️ * امام زمانہ (عج) کی اعطایی معرفت *♦️ (دوسرا حصہ)

 

گذشتہ کلاس میں بیان کیا گیا تھا کہ  اماموں کی معرفت کا نور انسان کے دل میں اسی وقت آسکتا ہے جب وہ ایمان، عمل اور اماموں کی دوستی کے ذریعہ ان سے نزدیک ہو۔ آج اس سلسلے میں مزید کچھ اہم باتوں کا ذکر کیا جارہا ہے:

۱- امام زمانہ (عج)  کی معرفت خدا کا خاص فضل و کرم ہے ، جس کو یہ معرفت حاصل ہوتی ہے وہی حقیقت میں اللہ کی بندگی اور معصومین  علیہم السلام کی اطاعت و پیروی کی نعمت پاتا ہے۔ اور اسی کو بندگی و عبادات کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ورنہ تمام عبادتیں بیکار ہوجاتی ہیں؛ جیسا کہ امام محمد باقرعلیہ السلام کا قول ہے کہ:  "دین کا سب اعلیٰ مرتبہ اور اس کی کلید اور ہر چیز میں خدائے رحمن کی خوشنودی امام کی معرفت کے بعد اس کی اطاعت میں ہے، بیشک خداوندعالم فرماتا ہے(جوشخص پیغمبر کی پیروی کرتا ہے وہ حقیقت میں اللہ کے حکم کو مانتاہے اور جو پیغمبر سے منھ موڑلیتا ہے تو ہم نے آپ کو اس کے لئے نگہبان نہیں بنایا ہے) بیشک جو شخص راتوں میں عبادت کے لئے قیام کرے، دنوں میں روزہ دار رہے، اپنے تمام اموال کو راہ خدا میں صدقہ دے دےاور ساری عمر حج کرتا رہے لیکن ولی خدا کے امرولایت کی معرفت و شناخت نہ رکھے تاکہ اس کی پیروی کرسکے اور اپنے اعمال کو ان کی رہنمائی میں انجام دے تو ایسے شخص کے لئے کوئی ثواب نہیں ہوگا اور وہ اہل ایمان میں سے نہیں ہوگا "(الکافی، ج 2، ص 19، ح 5)

مذکورہ حدیث کی روشنی میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو معرفت امام معصوم سے محروم کردیتا ہے یا جو شخص بغیر امام معصوم کی معرفت و شناخت کے کوئی عمل انجام دیتا ہے تو وہ شخص کچھ بھی کرلے لیکن نہ صاحب ایمان ہوگا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی اجر و ثواب ہوگا اس لئے کہ وہ نور ولایت کی روشنی سے محروم ہوتا ہے۔

۲۔ معرفت رسول {ص} اور آپ کے بعد اماموں کی معرفت و شناخت اس لئے بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دین  کے برناموں اور عبادات کو انجام دینے کے لئے ایسے آزاد نہیں رکھا گیا ہے بلکہ ان تمام کاموں کے لئے اللہ کے نمائندوں کی نگرانی میں رہنا ضروری ہے۔اسی لئے  رسول اللہ [ص] کے بعد ہر زمانے میں معصوم امام کا وجود ہے اور حکم دیا  گیا ہے جو بھی انجام دینا اسے انہیں حضرات کی نگرانی اور رہنمائی میں انجام دینا ہے اور یہ کام معرفت کے بغیر نہیں ہوسکتاہے  ۔ جیسا کہ پیغمبراکرم[ص] نے فرمایا کہ:

«مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَحْیَا حَیَاتِی وَ یَمُوتَ مِیتَتِی وَ یَدْخُلَ جَنَّةَ عَدْنٍ اَلَّتِی وَعَدَنِی رَبِّی قَضِیبٌ مِنْ قُضْبَانِهِ غَرَسَهُ بِیَدِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ کُنْ فَکَانَ فَلْیَتَوَلَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ وَ اَلْأَوْصِیَاءَ مِنْ ذُرِّیَّتِی فَإِنَّهُمْ لَنْ یُدْخِلُوکُمْ فِی بَابِ ضَلاَلٍ وَ لَنْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لاَ تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ»

"جو شخص چاہتا ہے کہ مجھ جیسی زندگی گزارے اور میری طرح دنیا سے رخصت ہو اور ساکن خلد برین ہو جس کا پروردگار نے وعدہ کیا ہے تو اسے چاہئے کہ میرے بعد علی علیہ السلام اور میری ذریت میں سے اوصیاء کی اطاعت و پیروی کرے اس لئے کہ وہ ہرگز تمہیں ہدایت سے دور نہیں ہونے دیں گے اور کبھی بھی گمراہی میں جانے نہیں دیں گے۔ تم انہیں سکھانے اور تعلیم دینے کی کوشش نہ کرنا یہ تم سب سے اعلم اور آگاہ ہیں(کامل الزیارات  ج۱ ص۷۱-بحار الانوار  ج۴۴ ص۲۶۰- عوالم العلوم  ج۱۷ ص۱۳۸).

آئمہ علیہم السلام کی معرفت اور حقیقی شناخت اللہ تعالیٰ کی جانب سے مل سکتی ہے جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے اور اس کے لئے دعا و توسّل کا بھی حکم دیا گیا ہے، جن میں بعض باتوں کا گذشتہ کلاسوں میں ذکر کیا گیا ہے۔

۴- جب انسان امام(عج)  کی حقیقی معرفت حاصل کرتا ہے تو دین و ایمان اور شریعت کے تمام برناموں اور مسائل میں صرف امام کی رہنمائی اور ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلے گا اور خود اپنی عقل و رائ نہیں لگائے گا۔  دین کے تمام علماء، فقہا اور مجتہدین کا بھی یہی کہنا ہے، جو کچھ ان کے دروازے سے حاصل ہو اس پر عمل کرنا ہے۔ کوئی بھی دین کے سلسلے میں امام معصوم سے بڑا مرجع اور مرکز نہیں ہے۔

۵۔ امام زمانہ (عج) سے مربوط جو بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں  اور جن کے پڑھنے کی بار بار پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے،  ان تمام کے مضامین اور ان میں بیان ہوئے مطالب پر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے امام زمانہ (عج) کی حقیقی اور واقعی معرفت  طلب کرنا ہے اور صرف امام معصوم ہی کواپنی زندگی کے مسائل  سب کچھ جاننا اور ماننا ہے۔

ان شاء اللہ آئندہ کلاس میں امام زمانہ عج کی معرفت کے مختلف پہلووں کاذکر کیا جائے گا جن کا اشارہ کچھ کلاسوں سے پہلے ایک کلاس میں کیا گیا تھا۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 8

❇️ * امام زمانہ (عج) کی اعطایی معرفت *♦️ (پہلا حصہ)

گذشتہ کلاسوں میں اشارہ کیا گیا تھا کہ امام زمانہ عج کی معرفت دو طرح سے ممکن ہے؛ اکتسابی معرفت اور اعطایی معرفت۔ اکتسابی معرفت یعنی کتابوں کے مطالعے اور ان میں غور و فکر کرکے معرفت حاصل کی جاۓ۔ لیکن اعطایی معرفت وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عطا اور کرم سے حاصل ہوتی ہے۔ اور آج کی کلاس میں اسی سلسلے میں چند باتوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔

۱۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس بات کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ متعدد اسباب جیسے نیک اعمال، پرہیزگاری، پاکیزہ زندگی، دعا اور اللہ تعالیٰ سے گہرے رابطہ اور اسی طرح اللہ اور معصومین علیہم السلام کے خاص کرم اور عنایت کی وجہ سے دل میں معرفت کا نور روشن ہوجاتا ہے اور انسان بہت سے حقایق سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ، رسول اور اس کے معصوم اماموں کی معرفت کے حاصل ہونے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس قانون اور طریقے کا ذکر بھی کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:  «یا أیّها الّذین آمنوا إن تتّقوا الله یجعل لکم فرقاناً» اے اہل ایمان! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہوگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں حق و باطل میں فرق کرنے کی طاقت عنایت فرماۓگا(سوره انفال، آیت29)۔     اسی طرح دوسرے مقام پر آیا ہے کہ:" وَ اَلَّذِینَ جٰاهَدُوا فِینٰا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنٰا" ؛ اور جن لوگوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم اُن کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے (عنکبوت‏، 69)۔  ان آیات کی روشنی میں یقینی طور پر  عمل اور پرہیزگاری کی تاثیر کا ذکر ہوا ہے اور معرفت خدا، معرفت رسول اور معرفت امام  کا حاصل ہونا ہی بہترین ہدایت اور حق و باطل میں فرق ہے۔

۲۔ تاریخی لحاظ متعدد واقعات اور احادیث میں ذکر ہوا ہے کہ انسان جب تقوا اور پرہیزگاری اور نیک عمل اور دعا و توسل کی زندگی گزارتا ہے اور واقعا  اخلاص کے ساتھ ان چیزوں کو انجام دیتا ہے تو اسے ایمان و معرفت کا بہترین درجہ حاصل ہوتا ہے ۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "جو شخص جوبات جانتا ہے اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ان باتوں کا بھی علم عطا کردیتا ہے جو نہیں جانتا ہے"۔  معصومین علیہم السلام سے قریبی اور نزدیکی اصحاب کے حالات اور واقعات بھی اسی بات کو بیان کرتے ہیں ۔ ان کا عمل اور اخلاص ہی تھا جس کے نتیجہ میں ایمان و معرفت میں اضافہ ہوا اور وہ معصومین علیہم السلام سے نزدیک ہوۓ۔

۳۔  جو شخص امام زمانہ عج کی معرفت اور شناخت کی تلاش میں رہتا ہے اور اخلاص کے ساتھ عمل اور دعا کرتا ہے۔ امام زمانہ عج سے متعلق دعاؤں اور اذکار کو پڑھتا ہے۔ ایسے شخص کے دل میں معرفت امام کا نور روشن ہوجاتا ہے۔  اس سلسلے میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ ابوخالد نامی شخص نے امام باقر علیہ السلام سے  " فَآمِنُوا بِاللّهِ وَ رَسُولِهِ وَ اَلنُّورِ اَلَّذِی أَنْزَلْنا " یعنی اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پرایمان لاؤ جو ان کے ساتھ نازل ہوا(تغابن، آیه8)  اس آیت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:اے ابوخالد! خداکی قسم نور سے مراد ہم آل محمد (ص) میں سے اماموں کا نور ہے جو روز قیامت تک رہیں گے۔خدا کی قسم! یہ حضرات خدا کے نور سے خلق ہوۓ ہیں جو پیغمبر(ص) کے ساتھ نازل ہوۓ ہیں ۔ خدا کی قسم! یہ زمین و آسمان میں خدا کے نور ہیں۔ خدا کی قسم! اے خالد۔ مومنین کے دل میں امام کا نور سورج کے نور سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔ خدا کی قسم! آئمہ مومنین کے دلوں کو منور کرتے ہیں اور خدا جس سے چاہتا ہے ان کے نور کو پوشیدہ کردیتا ہے جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کا دل تاریک و سیاہ ہوجاتا ہے۔ خدا کی قسم! کویٔ بھی بندہ اس وقت تک ہمیں دوست نہیں رکھ سکتا ہے جب تک ہماری پیروی نہ کرے، جب پیروی کرے گا تو خداوندعالم اس کے دل کو پاکیزہ کردےگا۔ اور خداوندعالم بندے کے دل کو اس وقت پاکیزہ نہیں کرتا ہے جب تک وہ ہمارے بارے میں خالص نہ ہوجاۓ اور ہم سے سازگاری (ملاپ) نہ رکھے۔ اور جو بندہ ہم سے سازگاری رکھے گا خداوندعالم قیامت کے دن اس کا حساب آسان کردے گا اور وہ قیامت کے دن کے ڈر و خوف سے محفوظ رہے گا"۔

مذکورہ حدیث کی روشنی میں صاف طور پر اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ اماموں کی معرفت کا نور انسان کے دل میں اسی وقت آسکتا ہے جب وہ عمل کے ذریعہ اماموں سے نزدیک ہو اور ان کے فرامین پر عمل کرے اور ان کی دوستی کا دم بھرتا ہے۔ اس سلسلے مزید باتوں کا ذکر آئندہ کلاس میں کیا جائے گا۔ 

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 7

❇️ * امام زمانہ (عج) کی اکتسابی معرفت *♦️ (دوسرا حصه)

گذشتہ کلاس میں امام زمانہ (عج)کی اکتسابی معرفت کے حوالے سے متعدد باتوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ آج اس سلسلے مزید کچھ باتوں کا اشارہ کیا جارہا ہے:

۱- امام زمانہ عج کی اکتسابی معرفت یعنی کتابوں کے مطالعہ کے ذریعہ کم سے کم ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے امام(عج) کی ولادت ۱۵/ شعبان سن /۲۵۵ھ میں ہوئی۔  اسکے بعد سن /۳۲۹ھ تک مختصر مدت کی غیبت کا زمانہ چلتا رہا جسکو غبیت صغریٰ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ امام زمانہ (عج)کی ولادت کے بعد آپکے والد گرامی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے وقت کے بزرگان اور خاص افراد سے آپ کی ملاقات کروائی  تھی اور آپ کو پہچنوایا تھا ۔ اسکے بعد تقریبا ۷۰ سال کی غبیت صغریٰ میں لوگوں سے عمومی رابطہ نہیں تھا لیکن آپ کے ۴/ خاص نائب تھے جن کو آپ نے خود معین فرمایا تھا جن کو نواب اربعہ کہا جاتا ہے ۔ انکے ذریعہ لوگوں سے رابطہ رہا اسکے بعد خود آپ کے اعلان سے غیبت کبریٰ کا زمانہ شروع ہوگیا جس میں آپ کا کوئی خاص نائب یا رابطہ نہیں ہے اور یہ زمانہ آج تک چل رہا ہے اس زمانے میں آپ کے فرمان کے مطابق آپ کی طرف سے جامع الشرائط مجتہدین آپ کے نائب ہیں انھیں کے ذریعہ دینی اور دنیاوی مسائل میں ہم کو جواب حاصل کرنا ہے  جن کے بارے میں خود امام زمانہ (عج) اور آپ کے والدگرامی حضرت امام حسن عسکری (ع) نے تاکید فرمائی ہے اور راستہ بتایا ہے۔

۲- امام زمانہ (عج)کے بارے میں موجودہ حدیثوں اور تاریخی بیانات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ (عج)کی شخصیت کے بارے میں تقریبا ہر دور میں معصومین علیہم السلام نے بہت سی باتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ خود پیغمبراکرم (ص)نے بہت سی حدیثوں میں امام مہدی (عج)کے بارے میں صفات  اور خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے۔ آنحضرت (ص)کے بعد حضرت فاطمہ زہرا (س)، امام علی علیہ السلام سے امام حسن عسکری علیہم السلام تک سب نے بہت سی حدیثوں کا ذکر فرمایا ہے۔

۳۔ امام زمانہ (عج)کی معرفت حاصل کرنے کے لئے ایک طریقہ اور ذریعہ یہ بھی ہے کہ ہم امام زمانہ (عج)سے منسوب مکانات اور جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہئے اور اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق حاصل ہو تو ان زیارات کے موقع پر ان جگہوں کے بارے میں خاص توجہ رکھنا چاہئے جیسے جب سامراّ کی زیارت نصیب ہو تووہاں  خاص توجہ ہونا چاہئے اس لئے کہ وہاں امام زمانہ (عج)کی ولادت ہوئی تھی، وہاں آپ  کا سرداب  ہے، وہاں آپ کے والد اور دادا  اور والدہ کی قبریں ہیں۔ وہاں امام (عج)نے کئی سالوں تک زندگی گزاری  اور یقینی طور پر اس زمانے میں آپ کا سامرّہ میں آنا جانا رہتا ہوگا۔ اسی طرح مسجد سہلہ، مسجد جمکران، کربلا میں مقام امام زمانہ (عج)یہ وہ مقامات ہیں جن کے بارے میں  امام زمانہ (عج)سے مربوط معلومات حاصل کرنا چاہئے۔  اسی طرح  امام زمانہ (عج)کی معرفت کے لئے خود امام کے والدین اور اجداد کے بارے میں بھی معلومات رکھنا بہت ضروری ہے۔

۴۔ امام زمانہ عج کی معرفت کے لئے ہر وہ کام انجام دینا چاہئے جن کے ذریعہ سے امام سے ہمیں لگاؤ پیدا ہو۔ ہمارے شوق میں اضافہ ہو، جیسے امام زمانہ عج سے منسوب دعاوں کے جلسوں میں شرکت کرنا، امام کو یاد کرنا، اپنے دل کے حالات کو امام سامنے بیان کرنا، اپنی مشکلات کا امام کے سامنے ذکر کرنا، امام کے لئے صدقہ دینا۔ اسی طرح بہت سے امور ہیں جن کو آئندہ کلاسوں میں بیان کیا جائےگا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 6

❇️ معرفت امام زمانہ(عج) کی اکتسابی معرفت؟❇️

گذشتہ کلاس میں بیان کیا گیا تھا کہ امام زمانہ (عج) کی معرفت اور شناخت دو طرح سے ہوسکتی ہے؛ ایک معرفت اکتسابی ہے یعنی ہم خود قرآن و احادیث و تاریخ کے ذریعہ امام زمانہ (عج) کو جان سکتے ہیں، ان کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ اور دوسرا اور اہم ذریعہ معرفت اعطایی ہے یعنی اللہ تعالیٰ خود ہمیں امام کی معرفت عطا کرتا ہے اور اس کے لئے اللہ کی بارگاہ میں دعا و توسل و ذکر کرنا ہے۔

آج انہیں دونوں طریقوں  میں سےمعرفت اکتسابی کے بارے میں مختصر طور پر وضاحت پیش کی جارہی ہے:

۱- کلی طور پر معصومین علیہم السلام اور خصوصی طور پر امام زمانہ(عج) کے مراتب و بلند مقامات کی شناخت اور معرفت کے لئے بہت سی کتابیں اور بہت سے مقالے لکھے گئے ہیں جن میں قرآنی آیات اور احادیث اور عقلی دلیلوں کا ذکر ہوا ہے جن میں امام زمانہ(عج) کے ظاہری نام و نسب و صفات اور مراتب و مقامات کا ذکر آیا ہے۔ قرآنی آیات و احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔اور کائنات میں امام کا کیا مقام ہے؟ کیا اختیار ہے؟ کیا وظیفہ ہے؟ امام زمانہ(عج) کی ضرورت کس طرح ہے۔ ان سب باتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ کے بارے میں مختلف قسم کے شبہات و شکوک کو بیان کرکے ان کے جواب دیئے گئے ہیں۔ آپ کی غیبت کے زمانے، ظہور سے پہلی کی نشانیوں، ظہور کے بعد کے حالات، آپ کی حکومت اور حکومت کی خصوصیات سب کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح غیبت کے زمانے میں امام کے چاہنے والوں اور انتظار کرنے والوں کو کیسا ہونا چاہئے ؟ کیا کام کرنا چاہئے؟ منتظرین کے فرائض کیا ہیں؟ ان کے عقائد و اخلاق کو کیسا ہونا چاہئے؟ ان تمام باتوں اور سوالوں کا جواب دیا گیا ہے؟ ہزاروں کتابیں اور مقالے اس سلسلے میں لکھے گئے ہیں۔ جن میں اگر ہم امام کی معرفت و شناخت حاصل کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ ان کا مطالعہ کریں، امام زمانہ(عج) کے بارے میں غور و فکر کریں، اپنے وظائف اور فرائض کو جان کر ان پر عمل کریں۔ اس طرح سے جو معرفت حاصل کی جائے گی اسے اکتسابی یعنی خود کوشش و مطالعے کے ذریعہ حاصل ہونے والی معرفت کہاجاتا ہے۔

۲- البتہ یاد رہے کہ اس طرح کی معرفت میں بھی سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ ہی کا کرم ہے ، اسی کی عطا کے ذریعہ ہم امام زمانہ(عج) کی کچھ معرفت حاصل کرسکتے ہیں، اس لئے کہ اس راہ میں توفیق اور قدم رکھنے کی طاقت بھی اللہ نے ہمیں دی ہے اور قرآن و احادیث و عقلی مطالب بھی اسی کی جانب سے ہم تک پہونچے ہیں۔

۳- امام زمانہ (عج) کی اکتسابی معرفت حاصل کرنا ہم سب پر واجب ہے۔ جیسا کہ گذشتہ کلاسز میں متعدد حدیثوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ جس میں سے  امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ؛ "بندہ اس وقت ایمان کے درجہ پر فائز ہوسکتا ہے جب وہ اللہ ، رسول ، تمام ائمہ اور اپنے زمانے کے امام کی معرفت رکھے اور امام وقت کی طرف مراجعہ کرے اور ان کے فرامین کے سامنے تسلیم رہے"۔(اصول کافی، ج۱، ص۱۸۰)۔

۴۔  روایات کی روشنی میں اپنے امام زمانہ (عج) کی واجب معرفت کی سب سے کم حد یہ ہے کہ انسان امام وقت کو ظاہری خصوصیات، نام و نسب اور اس کی خصوصیات کے بارے میں آگاہی رکھے تاکہ حقیقی امام اور گمراہ کرنے والے اور جھوٹے اماموں  میں فرق پیدا کرسکے ۔ (مکیال المکارم فی فوائد الدعا للقائم، ج 2، ص 107)

۵۔ موجودہ زمانے میں اپنے امام وقت(عج) کی معرفت اور خصوصیات اور آپ کی سیرت و اخلاق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا، تحقیق کرنا، ان کے بارے میں غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ہم سب جو  امام غائب کے ظہور کا انتظار کررہے ہیں، اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو ظہور کے لئے آمادہ کرسکیں۔ ظہور کے اسباب فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں  اور اپنی ذمہ داریوں کو جان کر انہیں ادا کرسکیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

شهادت حضرت امام موسی کاظم علیه السلام

 

شهادت حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کے موقع پر تسلیت پیش کرتے ہیں

 

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 5

❇️ معرفت امام زمانہ(عج) کیا ہے؟

آج کی کلاس میں امام زمانہ(عج) کی شناخت اور معرفت کا مطلب کیا ہے؟ اس سلسلے میں کچھ اہم باتوں کا ذکر کیا جارہا ہے:

  1. معرفت عربی زبان میں کسی بات یا چیز کو جاننے اور اچھی طرح سمجھنے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ معرفت اور عرفان حاصل کرنا ظاہری طور پر چیزوں کا علم حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ معرفت کسی چیز یا بات کی تہہ تک پہونچنے اور اس کے بارے میں غورو فکرکرنے کو کہا جاتا ہے۔ [المفردات، ص۵۶۰]۔
  2. امام وقت کی معرفت حاصل کرنا اس طرح سے ہونا چاہئے کہ ان کے بارے میں عقیدے اور ایمان میں کسی طرح کا شک نہ رہ جائے۔ اور امام وقت کی معرفت بہت اہم مرحلہ ہے جیسا کہ   حدیث میں آیا ہے کہ: «مَنْ شَک فِی أَرْبَعَةٍ فَقَدْ کفَرَ بِجَمِیعِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَک وَ تَعَالَی أَحَدُهَا مَعْرِفَةُ الْإِمامِ فی کلِّ زَمَانٍ وَ أَوَانٍ بِشَخْصِهِ وَ نَعْتِهِ» جو شخص چار چیزوں کے بارے میں شک کرے گویا اس نے اللہ کے بتائے ہوئے تمام امور کے بارے میں شک کیا، اور اس میں سے ایک امام کی معرفت ہے نام اور صفات کے ساتھ۔
  3. امام مہدی [عج] کی معرفت اور شناخت کے بارے میں جب بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم امام زمانہ[عج]  کے بارے میں عمومی معلومات حاصل کرلیں۔ یعنی صرف آپ کا نام و نسب، آپ کے خاندان کے بارے میں ، آپ کی عمر کے بارے میں یا آپ کے بارےمیں ظاہری معلومات حاصل کرلیں۔ یہ کافی نہیں ہے اور حقیقی طور پرامام زمانہ[ عج] کی معرفت نہیں ہے۔
  4. حدیثوں کی روشنی میں امام زمانہ عج کی حقیقی معرفت کے متعدد مراحل اور گوشے ہیں۔ جن کے بارےمیں ہماری معلومات اور دقت و غور و فکرکے ساتھ ان کے بارےمیں معرفت حاصل کرنا ہمیں ایمان و عقیدے کے بلند مراتب تک پہونچاتا ہے اور زندگی میں بھی اس کے آثار و برکات حاصل ہوتے ہیں۔
  5. پروردگار کا کرم اور فضل ہے کہ اس نے ہمارے لئے اپنی جانب سے معصوم اماموں اور رہبروں کو رکھا ہے  لہذا ہم پر ضروری ہے کہ ان کی معرفت و شناخت حاصل کریں اور اسی طرح یہ بھی کرم ہے کہ اس نے خود ہی اپنے معصوم نمائندوں کو پہچنوایا ہے اور ہمارے سامنے ان کو پہچاننے کے مختلف طریقے اور ذریعہ رکھے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امام زمانہ عج کی معرفت و شناخت کے مندرجہ ذیل دو اہم ذریعےہیں:

۱۔ معرفت اکتسابی۔ یعنی ہم خود قرآن و احادیث  و تاریخ کی کتابوں وغیرہ کو پڑھ کر امام زمانہ عج کے بارے میں معرفت اور شناخت حاصل کریں۔

۲۔ معرفت اعطایی۔ یعنی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا و توسل و ذکر و اعمال نیک کے ذریعہ امام زمانہ عج کے بارے میں حاصل ہونے والی معرفت۔

  1. اسی طرح احادیث کی روشنی میں امام زمانہ عج کی معرفت کے لئے چار اہم مرتبے اور پہلو پائے جاتے ہیں :

۱: امام زمانہ عج کی تاریخی اور شخصیت کے اعتبار سے معرفت و شناخت۔

۲: امام زمانہ عج کے صفات اور آپ کے برناموں کی معرفت و شناخت۔

۳: امام زمانہ عج کے مقام ولایت اور نورانیت کی معرفت و شناخت۔

۴: امام زمانہ عج کے فرامین اور آپ کی خواہشات کی معرفت و شناخت۔

نوٹ: آئندہ کلاسوں میں امام زمانہ عج کےبارے میں معرفت و شناخت حاصل ہونے کے دو ذریعوں اور طریقوں کے بعد، مذکورہ چار مراتب اور پہلووں کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا جائے گا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری