سیرت حضرت فاطمہ زہرا( سلام اللہ علیہا) کے عبادی،  اخلاقی اور سیاسی پہلو
تحریر: انیس فاطمہ(زیبی)



مقدمہ
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت، اسلام کی ایک مکمل تصویر ہے، جس میں عبادی، اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی پہلو شامل ہیں۔ امام مہدی  عج کے ظہور کا تصور اسی نظامِ عدل کی تکمیل ہے جس کی بنیاد رسول اکرم ﷺ اور اہل بیت علیہم السلام نے رکھی۔ یہ مقالہ بتاتا ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کس طرح ظہورِ امام مہدی علیہ السلام کے لیے عملی اور اخلاقی زمینہ فراہم کرتی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ صدیقہ طاہرہ کی زندگی عدل، تقویٰ اور ظلم کے خلاف قیام کی عملی مثال ہے جو امامِ منتظر کے مشن کی بنیاد ہے۔امام مہدی علیہ السلام نے اپنی جدہ کی سیرت کو اپنے لیے "اسوہ حسنہ" قرار دیا۔ لہٰذا ظہور کے منتظرین کے لیے ضروری ہے کہ وہ فاطمی سیرت پر عمل کریں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو اسی معیار کے مطابق ڈھالیں۔ 
الف:سیرت فاطمہ زہرا (س) کے عبادی پہلو
۱. تقویٰ اور عبادت
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے تھا۔ وہ نماز، روزہ، اور ذاتی عبادات میں کامل نمونہ تھیں:
"کانت فاطمه تحرص علی العبادة و تزکیة النفس "(مستدرک الوسائل، ج۱، ص۱۲۳)
ترجمہ: فاطمہ ہمیشہ عبادت اور نفس کی تزکیہ میں کوشاں رہتی تھیں۔
۲- کامل بندگی
روایات میں ملتا ہے کہ حضرت زہراؑ اتنی دیر تک نماز میں کھڑی رہتی تھیں کہ قدم سوج جاتے تھے۔(مستدرک الوسائل، حر عاملی، ج ۱، ص ۱۲۳)
یہ نمونہ ایک روحانی بیداری والے معاشرے کی ضرورتِ اولیٰ ہے۔
۳- دوسروں کے لیے دعا
امام حسنؑ فرماتے ہیں کہ میری مادرِ گرامی ہمیشہ پہلے دوسروں کے لیے دعا کرتیں اور کہتیں:" الجار ثم الدار"—پڑوسی اول، گھر والے بعد میں۔( عیون  اخبار الرضا، ج۲، ص ۶۲)
۴-تربیتِ نسل
حضرت زہراؑ کی تربیت کا نتیجہ امام حسنؑ، امام حسینؑ اور حضرت زینبؑ کی صورت میں ظاہر ہوا، جنہوں نے دین کو نئی زندگی دی۔(مناقب ابن شہر آشوب ج۳،ص ۳۲۵)
ب- سیرت فاطمہ زہرا ( س) کےاخلاقی پہلو
امامِ زمانہؑ کے ظہور کے لئے روایات میں جس اخلاقی و ایمانی ماحول کی ضرورت بیان ہوئی ہے، وہ سب سے زیادہ سیرتِ فاطمیؑ میں نظر آتا ہے۔ اس لئے آپؑ کے اخلاقی اوصاف خود ظہور کی فکری و روحانی بنیاد ہیں۔
۱- صداقت، حق پسندی اور باطل کے مقابلے میں استقامت
حضرت زہراؑ کی پوری زندگی حق کی حمایت اور باطل سے ٹکرانے کا نمونہ ہے۔
یہ اخلاق امامؑ کے ظہور کیلئے مرکزی شرط ہے، کیونکہ امامؑ کا مشن ہی “قیامِ حق” ہے۔
رسولِ خداؐ نے فرمایا:
فاطِمَةُ صِدّیقَةٌ(الحاکم النیسابوری، المستدرک، ج3، ص159)
جو معاشرہ حق پر ثابت قدم نہ ہو، وہ امامِ عدل کی نصرت کے قابل نہیں ہوتا۔فاطمہؑ کا “صدّیقہ ہونا” امت کو ظہور کے لئے اخلاقی استقامت سکھاتا ہے۔
۲- اعلیٰ ترین حیا و عفت — ظہور کے لئے روحانی پاکیزگی کا معیار
امامِ زمانہؑ کے اصحاب کے بارے میں روایت ہے کہ وہ پاکیزہ کردار والے ہوں گے۔
حضرت فاطمہؑ کی حیا تمام انسانوں کے لئے کامل نمونہ تھی۔
رسولِ اکرمؐ نے فرمایا:"اِنَّ فاطِمَةَ لَتَسْتَحْیِی مِنَ اللهِ حَقَّ الحَیاءِ"(بحار الانوار، ج43، ص75)
فاطمی حیا ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کرتی ہے جوباطنی پاکیزہ،روحانی طور پر مضبوط،اور گناہوں سے دور ہوتا ہے۔یہی ماحول ظہور کا مقدمہ ہے۔
۳- ایثار، سخاوت اور نوعِ انسانی سے محبت
ظہور کے ساتھی وہ ہوں گے جو دوسروں کے لئے ایثار کرنے والے ہوں گے۔
حضرت فاطمہؑ نے تین دن کا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو دے کر عطا و ایثار کی بلند ترین مثال قائم کی۔(سورہ الدہر، آیات 8–9)
"وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا..."
ایثار وہ اخلاقی فضا بناتا ہے جس پر امامؑ کی عدالت قائم ہونا ہے۔
ظہور کے “نصرت گار” فاطمی اخلاق کے وارث ہوں گے۔
4- صبر اور استقامت — ظہور سے پہلے آنے والی آزمائشوں کے لئے تیاری
ظہور سے پہلے سخت فتنوں کا زمانہ ہوگا۔ جو قوم صبر نہ رکھے وہ امام کی پیروی نہیں کر سکتی۔
حضرت فاطمہؑ نے سب سے زیادہ ظلم اور غربت کے باوجود صبر کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
"اِنَّما سُمِّیَت فاطِمَةُ الزَّهْراءُ لِصَبْرِها"(عیون المعجزات، ص50)
فاطمی صبر مؤمنین کو ظہور سے پہلے کے امتحانات میں مضبوط بناتا ہے
۵- عبادت، دعا اور روحانی ربط — ظہور کے حقیقی منتظر کی بنیاد
حضرت فاطمہؑ رات بھر عبادت اور دعا کرتی تھیں۔
ان کی خاص دعا تھی: "الجارُ ثُمَّ الدّار" (پہلے دوسروں کے لئے، پھر اپنے لئے)۔(شیخ صدوق، الأمالی، ص182)
امامؑ کے حقیقی منتظر کی نشانی یہ ہے کہ وہ:عبادت گزار،اللہ سے وابستہ،اور مخلوق کا خیرخواہ ہو۔یہ سب فاطمی اخلاق کے اوصاف ہیں۔
۶- حسنِ معاشرت، نرمی اور خوش اخلاقی — ظہور کے عدل پسند معاشرے کا نمونہ
امامؑ کے اصحاب:نرم دل،خوش گفتار،اور با اخلاق ہوں گے۔حضرت فاطمہؑ نے کبھی کسی سے سخت کلامی نہیں کی۔
امام حسنؑ:میں نے اپنی والدہ کو کبھی کسی کے ساتھ بدکلامی کرتے نہ دیکھا"(بحارالانوار، ج43، ص81)
ظہور وہیں ہوگا جہاں معاشرہ اخلاقِ فاطمی سے آراستہ ہو۔
۷- علم، بصیرت اور حق کی معرفت — امامؑ کے شناخت کنندہ افراد کی تربیت
فاطمہؑ کا خطبہ فدکیہ فکری بصیرت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
امامؑ کے ظہور کے لئے “بصیرت” بنیادی شرط ہے۔(الاحتجاج للطبرسی، ج1، ص109–150)
بصیرت کے بغیر امام کی شناخت ممکن نہیں،اور بصیرت کا سرچشمہ فاطمی تعلیم و اخلاق ہے۔
ج-سیرت فاطمہ زہرا(س) کے سیاسی پہلو
۱- دفاعِ ولایت
حضرت زہراؑ نے خطبہ فدکیہ میں نہ صرف اپنا حق بیان کیا بلکہ ولایتِ علویؑ کے اصولی مقام کی بھی وضاحت فرمائی۔(الاحتجاج  طبرسی، ج۱،ص ۹۹)
یہی اصول مہدیؑ کے ظہور کی فکری بنیاد ہے۔
۲-عدل کے لیے اجتماعی آواز
خطبے میں حضرتؑ نے عدلِ اجتماعی، قرآن کی اہمیت اور امت کی اصلاح کی ضرورت بیان کی۔(الاحتجاج،طبرسی، ج۱،ص۹۹)
ظہور ایک ایسے معاشرے میں ممکن ہے جو عدل کو اپنا معیار بنائے۔
۳- سیرتِ فاطمی اور ثقافتِ انتظار
۳-۱- انتظار حرکت ہے، سکون نہیں
حضرت زہراؑ کی زندگی جہدِ مسلسل ہے۔ انتظارِ فعال کا یہی مطلب ہے—اصلاح اور اقدام(آفاق مھدویت )
۳-۲- پاکیزگی (طہارت)
طہارت حضرت زہراؑ کی بنیادی صفت ہے۔ آیتِ تطہیر اس کی گواہی دیتی ہے(القران، آیت تطہیر، سورہ احزاب ۳۳)
طہارتِ باطن، ظہور کے لیے فرد و معاشرے کی پہلی شرط ہے۔
۳–۳. ظلم کے خلاف قیام
حضرتؑ نے ظلم، تحریف اور گمراہی کے خلاف آواز اٹھائی۔ مہدیؑ کا عالمی قیام بھی ظلم کے خاتمے کے لیے ہے، لہٰذا منتظر معاشرہ ظلم برداشت نہیں کرتا۔(ملحقات نہج البلاغہ،خطبہ ۲۰۳)
۳-۴- مظلومیت اور حق پر استقامت
آپ کی زندگی مظلومیت کے خلاف حق کی بازیگری کی مثال ہے۔ خلافت کے دور میں اپنے والد حضرت محمد ﷺ اور اہل بیت کی حمایت میں کھڑی رہیں۔
۳-۵- مادری اور ذریعی مقام
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ اس کے ذریعے عدل اور ولایت کی تسلسل قائم ہے۔
تیسراباب: سیرتِ فاطمہ اور زمینہ سازیٔ ظہور
حضرت فاطمہ کی مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ظلم کے سامنے خاموش نہ رہنا، عدل کا علم بلند کرنا، اور دین و ولایت کی پاسداری کرنا زمینہ سازی کا حصہ ہے۔زمینہ سازی کا مطلب صرف عقیدہ نہیں بلکہ عملی زندگی کی تیاری ہے: اخلاق، عبادت، معاشرت اور اصلاحِ معاشرہ۔حضرت فاطمہ کی زندگی یہ درس دیتی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لیے انتظار کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔
نتیجہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت عدل، تقویٰ اور ظلم کے خلاف قیام کی عملی مثال ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لیے ضروری ہے کہ امت اپنی زندگی، کردار اور معاشرتی تعلقات کو اسی اصول پر ڈھالے۔ زمینہ سازی صرف عقیدہ نہیں بلکہ عملی کوشش بھی ہے۔ فاطمی سیرت پر عمل کرنے والے ہی حقیقی منتظر کہلائیں گے۔سیرتِ حضرت فاطمہؑ ایک کامل مهدوی تربیتی ماڈل ہے۔ایمان، ولایت، عدل اور اخلاق پر قائم ایسا معاشرہ خود بخود ظہور کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اپنی زندگی، کردار، اور معاشرت میں اصلاح کریں، علم و معرفت حاصل کریں، عدل و انصاف کو فروغ دیں اور دعا کے ذریعے اپنے آپ کو امامؑ کے ظہور کے لیے تیار کریں۔ یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔امام زمانہؑ کے ظہور کے لیے ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم خود کو، اپنے معاشرہ کو اور اپنی زندگی کو وہ معیار دیں جو امامؑ کی توقع کے مطابق ہو۔ ظہور کا انتظار دراصل خود سازی، معاشرتی اصلاح اور الٰہی نظام کی تیاری ہے۔
 
حوالہ
قرآن کریم
بحارالانوار، علامہ مجلسی، 
نہج البلاغہ، خطب و نامه‌ها، ترجمہ
مستدرک الوسائل، حر عاملی
عیون اخبار الرضا
مناقب ابن شھر آشوب
آفاق مھدویت
الاحتجاج،طبرسی