خصوصیات و فضائل حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام
تحریر : محسنه رضوی
تمہید:
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ اور امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ حضرت فاطمہ کے بلندی مقام کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ولادت کو اپنے نبی کے لیے بابرکت قرار دیا، ان کو "خیرِ کثیر" کا لقب دیا، اور ان کی شان میں سورۂ کوثر نازل فرمائی۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلاماللہعلیہا) کے اسماء، القاب اور کنیتیں
شیخ صدوق اور شیخ کلینی نے امام جعفر صادق (علیہالسلام) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے یونس بن ظبیان سے فرمایا: فاطمہ (سلاماللہعلیہا) کے خداوندِ عالم کے نزدیک نو نام ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدّثہ، زہرا۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ فاطمہ کا معنی کیا ہے؟ یونس کہتا ہے: میں نے عرض کیا، اے میرے مولا! مجھے خبر دیجئے۔ امام صادق (ع) نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر بُرائی سے جدا کی گئی ہے، اور اگر امیرالمؤمنین (علیہالسلام) ان سے شادی نہ کرتے تو قیامت تک حضرت آدم (ع) سے لے کر ان کے بعد تک زمین پر ان کے برابر کوئی بھی نہیں ہوتا۔ امام صادق (علیہالسلام) سے یہ بھی پوچھا گیا کہ فاطمہ (سلاماللہعلیہا) کو “زہرا” کیوں کہا جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ جب وہ عبادت کے لیے محراب میں کھڑی ہوتیں، ان کے نور کی چمک آسمان والوں کے لیے ظاہر ہوتی، جیسے زمین والوں کے لیے ستاروں کی روشنی ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ مجلسی نے اپنی مشہور کتاب "بحارالانوار" میں ابن شہر آشوب کی "مناقب" سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ (علیہاالسلام) کی کنیتیں أم الحسن (ام الحسن)، أم الحسین (ام الحسین)، أم الأئمة (ام الائمہ) اور أم أبیها (اپنے باپ کی ماں) ہیں۔ حضرت کے بعض دیگر اسماء و القاب یہ ہیں: أنسیة – ایسی خاتون جن میں بہترین انسانی اخلاق جلوہ گر ہوں۔ بتول – پاکیزہ خاتون جو ہر طرح کی آلودگی سے دور ہو۔ تقیة – پاک اور بے گناہ۔ حبیبة – دوست، محبوب، حوراء – فرشتہ صفت خاتون، جو فرشتوں جیسے پاکیزہ اوصاف رکھتی ہوں۔ کوثر – خیر و برکت کا سرچشمہ، وہ خاتون جن میں بے شمار خیر و برکت ہو۔ ریحانة – خوشبو دار، لطیف اور مہربان پھول۔
قرآن میں حضرت فاطمہ (س) کا مقام ومرتبه
قرآنِ مجید میں تقریباً تیس آیتیں ایسی ہیں جن کی تفسیر یا تاویل حضرت فاطمہ زہرا (س) سے منسوب کی گئی ہیں ۔ ذیل میں چند نمایاں مقامات کا ذکر کیا جا رها ہے
آیۂ مودّت (آیۂ قربیٰ) :
قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَىٰ (سورۃ الشوریٰ، آیت 23) ترجمہ: (اے نبی!) کہہ دیجیے : میں تم سے اپنی رسالت پر کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا، سوائے اس کے کہ تم میرے قرابت داروں سے مودت اختیار کرو ۔ اس آیت کی تفسیر میں "قربیٰ" سے مراد حضرت علی (ع)، حضرت فاطمہ (س)، حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) ہیں۔
آیۂ مباہلہ:
فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکَاذِبِینَ (سورۃ آل عمران، آیت 61) ترجمہ: پس اگر کوئی شخص تمہارے علم کے آنے کے بعد بھی عیسیٰ کے بارے میں جھگڑا کرے، تو کہہ دو:ہم اپنے بیٹے کو لاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ، ھم اپنی عورتوں کو لاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو لاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں تم اپنے نفسوں کو لاؤ ، پھر دعا کریں کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ھو ۔ معتبر تاریخی روایات کے مطابق، رسولِ اکرم (ص) مباہلہ کے موقع پر صرف حضرت علی (ع) کو مردوں میں سے، حضرت فاطمہ (س) کو عورتوں میں سے، اور حضرت حسن و حسین (ع) کو بچوں میں سے اپنے ساتھ لے گئے۔
آیاتِ سُورۂ انسان (آیات 7 تا 9)
: یُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُونَ یَوْمًا کَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِیرًا * وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا * إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِیدُ مِنکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا ترجمہ: وہ لوگ اپنی نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوگی۔ وہ خدا کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم تمہیں صرف خدا کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں، نہ تم سے صلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ شانِ نزول کے مطابق، جب حضرت حسن (ع) اور حسین (ع) بیمار ہوئے، تو حضرت علی (ع)، حضرت فاطمہ (س) اور فضہ نے نذر مانی کہ صحت یابی پر تین دن روزہ رکھیں گے۔ صحت ملنے کے بعد جب روزے رکھے تو ہر دن افطار کے وقت اپنا کھانا ایک مسکین ، ایک یتیم اور ایک اسیر کو دے دیا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
سورۂ کوثر :
إنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ * فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ * إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ (سورۃ الکوثر، آیات 1-3) ترجمہ: بے شک ہم نے تمہیں خیرِ کثیر عطا کیا ہے۔ لہٰذا اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی دو۔ یقیناً تمہارا دشمن ہی بے نسل ہے۔ اہلِ تفسیر کے مطابق "کوثر" سے مراد خیرِ کثیر ہے، جو پیغمبر اکرم (ص) کی نسلِ پاک کے ذریعے باقی رہی — اور یہ نسل صرف حضرت فاطمہ زہرا (س) کے ذریعہ سے آگے بڑھی۔ چونکہ رسول کے صاحبزادے بچپن میں وفات پا گئے تھے، کفار نے کہا کہ وہ اب “ابتر” (بے اولاد) ہیں۔ خدا نے اسی الزام کا جواب دیا کہ دشمنِ رسول ہی دراصل بے نام و نشان رہے گا۔
خصوصیات و فضائل حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)
یہاں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کچھ اہم صفات اور خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے :
۱- علمِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
اهلبیت ع علمِ خداوندی کے خزانے ہیں۔ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ایسی عالمہ تھیں جنہوں نے اپنا علم کسی مکتب یا اُستاد سے حاصل نہیں کیا، بلکہ وہ رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آغوشِ مبارک میں پروان چڑھیں اور وحی الٰہی کی حامل تھیں۔ حضرت کے گہرے معانی رکھنے والے فرمودات، خطبات، دعائیں اور روایات، ان کے علمِ الٰہی ھونے کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کے تربیتی کردار اور عملی سیرت — جیسا کہ اولاد کی پرورش، بہترین ہمسری، امت کی رہنمائی، اور خاص طور پر خواتین کے لیے نمونہ بننا — سب حضرت کے اعلیٰ علمی مقام کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت فاطمہ (س) قرآن کے علوم اور گزشتہ ادیان و شریعتوں کے احکام سے واقف تھیں، لکھنا پڑھنا جانتی تھیں، اور عورتوں سے متعلق مذہبی سوالات کے جوابات بھی دیا کرتی تھیں۔ "مصحفِ فاطمہ" بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کے اندر علوم و معارفِ الٰہی کو قبول کرنے کی بے پناہ استعداد تھی۔ چونکہ ظرف اور مظروف میں مطابقت ضروری ہے، لہٰذا اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کس قدر گہری بصیرت اور حقیقتِ آفرینش کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: "نزدیک آؤ تاکہ تمہیں ماضی، حال اور مستقبل کے تمام واقعات جو قیامت کے دن تک آنے والے ہیں بتا دوں۔" حضرت فاطمه س کے وسیع و عمیق علم کی بہترین شہادت وہی خطبات ہیں، خصوصاً "خطبہ فدکیہ" جو اُنہوں نے مدینہ کی مسجد میں مہاجرین و انصار کے سامنے خلیفه اول کے ساتھ احتجاج فرمایا۔
۲- عبادتِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
حضرت فاطمہ(س) عبادت میں بے مثال تھیں۔ وہ اس مقام تک پہنچ گئیں کہ دنیا کی بہترین خواتین اور جنت کی عورتوں کی سردار قرار پائیں۔ امام حسن مجتبیٰ (ع) فرماتے ہیں: میں نے اپنی ماں کو شب جمعه محراب عبادت میں دیکھا، وہ مسلسل رکوع و سجود میں رہیں یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔
حسن بصری کہتے ہیں: دنیا میں فاطمہ (س) سے زیادہ عبادت گزار کوئی نہیں دیکھا گیا۔ وہ اتنا طویل قیامِ کرتی تھیں کہ ان کے پاؤں ورم کرجاتے تھے۔ عبادت کے وقت وہ اس قدر خضوع و خشوع میں ڈوب جاتیں کہ اپنے اہل و عیال کی فکر سے بھی غافل ہوجاتیں، باوجود اس کے کہ انہیں اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ اس حالت میں خداوند عالم فرشتوں کو بھیجتا تھا تاکہ وہ ان کے بچوں کے جھولے جھلائیں۔
۳- عصمتِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
عصمت کا مطلب ہے خطا، لغزش اور گناہ سے محفوظ رہنا۔ حضرت فاطمہ (س) کی عصمت قرآن و احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن میں آیتِ تطہیر اور مباہلہ اس پر گواہ ہیں، اور احادیث میں آیا ہے کہ فاطمہ (س) کی ناراضگی دراصل خدا اور رسول کی ناراضگی ہے۔ حضرت زہرا (س) انبیاء و اولیاء کی طرح معصوم تھیں، کیونکہ روایات میں ان کی منزلت، نورانیت اور ولایت کو ان کے برابر بلکہ بعض لحاظ سے برتر قرار دیا گیا ہے۔ آیتِ تطہیر میں اہلبیتِ پیغمبر (ص) میں فاطمہ، علی، حسن اور حسین (ع) کا ذکر ہے اور ارشاد ہے کہ: "خدا صرف یہی چاہتا ہے کہ تم اہلبیت سے ہر ناپاکی کو دور کرے اور تمہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ بنائے۔"
۴- حجاب اور عفتِ فاطمہ ((سلام اللہ علیہا)
حضرت فاطمہ دنیا کی تمام عورتوں کے لیے حجاب و پردہ اور حیاء میں بہترین نمونہ ہیں۔ ایک مرتبہ جب آپ کے والدِ گرامی (رسول اکرم ﷺ) ایک نابینا شخص کے ساتھ آپ کے گھر آنے لگے، تو آپ نے فرمایا: ’’اجازت دیجیے کہ میں خود کو ڈھانپ لوں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بیٹی! یہ شخص نابینا ہے۔‘‘ تو حضرت فاطمہ (ع) نے عرض کیا: ’’اے پدرِ بزرگوار! میں تو اسے دیکھتی ہوں یہ جواب ان کے کمالِ حیاء کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک نابینا مرد سے بھی پردہ فرماتی تھیں۔ یہاں تک کہ اپنی وفات کے وقت بھی انہیں اپنے پردے اور جسم کے حجم کے چھپنے کا خیال تھا۔ جب ان کی خادمہ نے انہیں بتایا کہ تابوت اس طرح بنایا جا سکتا ہے کہ جسم کا اندازہ ظاہر نہیں ہوگا، تو حضرت فاطمہ (ع) کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔
۵- خشیتِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
’’خوف ‘‘ گناہ اور اعمال کی کمی کے ڈر کو کہتے ہیں، جبکہ ’’خشیت‘‘ خدا کی عظمت اور جلالت سے پیدا ہونے والے خوف کو۔ حضرت فاطمہ (ع) کے دل میں دونوں صفات جمع تھیں۔ جب وہ نماز کے لیے کھڑی ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور عظمت کے احساس سے ان کی سانسیں تیز ہو جاتیں۔
۶- کرامات و معجزات حضرت فاطمہ ( سلام اللہ علیہا)
آپ کے معجزات اور کرامات اُس وقت سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے جب وہ ابھی اپنی والدہ کے شکم مبارک میں تھیں۔ جب اہلِ مکہ نے اُن کی والدہ کو، جو ایک یتیم شخص (حضرت محمد ص) سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں، تنہا چھوڑ دیا تھا، اُس وقت بھی فاطمہ (س) اپنی والدہ کی مونس و غمگسار تھیں اور اُنہیں تسلی دیا کرتی تھیں۔ کئی بار صحابۂ رسول (ص) نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ (س) کے گھر میں چکّی خود بخود چل رہی ہے، اور وہاں کوئی موجود نہیں ھے ۔ وہ تعجب کرتے ہوئے رسولِ خدا (ص) کے پاس جاتے اور واقعہ بیان کرتے۔ رسولِ اکرم (ص) مسکرا کر فرماتے: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ نے ایسے فرشتے مقرر کیے ہیں جو محمد (ص) اور اُن کے اہلِ بیت (ع) کی قیامت تک مدد کرتے رہیں گے . ابو عبیدہ روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد فاطمہ (س) کو سخت غم اور دکھ لاحق ہوا۔ اس پر جبرائیل (ع) روزانہ اُن کے پاس آتے، اُنہیں تسلی دیتے، رسول (ص) کے مقامات و منازل سے آگاہ کرتے، اُن کی اولاد پر جو گزرے گا اُس کی خبریں دیتے اور آئندہ کے واقعات سے مطلع کرتے۔ حضرت علی (ع) ان باتوں کو ایک صحیفے میں لکھتے جاتے جسے ’’مصحفِ فاطمہ (س)‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مصحف دراصل اللہ کے لامحدود علم کی تجلیات میں سے ایک جلوہ ہے جو حضرت فاطمہ (س) کے پاکیزہ اور عظیم نفس پر نازل ہوا۔ روایات کے مطابق، اس میں ماضی و مستقبل کی تمام خبریں قیامت تک درج ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جو ائمۂ اطہار (ع) کے علمی مصادر میں سے ایک بنیادی ذریعہ ہے، اور حضرت فاطمہ (س) کے بعد ہر امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتی رہی، یہاں تک کہ اب یہ امام زمانہ (عج) کے پاس موجود ہے .یہ واقعہ سیدہ فاطمہ (س) کے لیے ایک بےمثال فضیلت ہے، کیونکہ جبرائیل (ع) کی ایسی آمدورفت بزرگ انبیائے کرام کے سوا کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھی گئی.
۷- وعظ و نصیحت حضرت فاطمہؑ( سلام اللہ علیہا)
عبادت میں اخلاص جو شخص اپنی خالص عبادتیں اللہ کے لیے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے بہترین مصلحت نازل فرماتا ہے- حضرت فاطمہ س فرماتی ہیں کہ صرف اخلاص کافی نہیں بلکہ دیگر شرائط کا بھی لحاظ ضروری ہے، کیونکہ بعض اوقات عبادت خالص ہوتی ہے لیکن گناہ جیسے حسد، غرور اور تکبر دعا کے عروج میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اپنے دل و باطن کو بھی پاک کرے تاکہ دعا اور عبادت اثرپذیر ہو۔
۸- نرمی و مہربانی
تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو لوگوں سے نرمی اور مہربانی سے پیش آتے ہیں، دوسروں کی عزت کرتے ہیں اور اکرام و احترام کا خیال رکھتے ہیں۔ حضرت کا ارشاد ہے کہ انسان کو اپنی ہوشیاری اس میں دکھانی چاہیے کہ وہ دوسروں پر بوجھ نہ ڈالے، بلکہ ان کے ساتھ عزت و شرافت سے پیش آئے۔
۹- مروّت کے اصول
حضرت فاطمہ (س) نے رسولِ خدا ص سے روایت کی کہ مروّت (انسانیت و شرافت) چھ چیزوں میں ہے : حالتِ حضر (گھریلو یا عام حالت میں) : قرآن کی تلاوت، مسجدوں کی آبادی، اور دینی بھائیوں سے خالصتاً اللہ کے لیے میل جول۔ سفر میں: زادِ راہ میں سخی ہونا، خوش اخلاقی، اور ایسا مزاح کرنا جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو۔
منابع
علامه محمدباقر مجلسی، بحار الانوار.
ابراهیم امینی، (۱۳۷۳) بانوی نمونه اسلام فاطمه زهرا علیهاالسلام، انتشارات شفق.
محمدتقی مصباح یزدی، (۱۳۸۸) جامی از زلال کوثر، انتشارات موسسه آموزش و پژوهشی امام خمینی.
سید مسعود پورسید آقایی، (۱۳۸۱) چشمه در بستر، تحلیلی از زمان شناسی حضرت زهرا علیهاالسلام، انتشارات حضور.
علی سعادت پرور، (۱۳۸۸) جلوه نور، پرتوی از فضائل معنوی فاطمه زهرا علیهاالسلام، انتشارات رویداد.
زهرا گواهی، (۱۳۷۳)، مقام علمی و کرامات حضرت زهرا (علیهاالسلام)، انتشارات طلیعه.
محبوبه ساطع، (۱۳۸۱) نور آسمانی: تاریخ و تحلیل زندگانی حضرت زهرا (س)، انتشارات فرهنگ مردم.
سید محمد حسینی بهارانچی، (۱۳۸۱)، اسوة النساء؛ بانوی نمونه عالم، انتشارات دفتر تبلغیات اسلامی حوزه علمیه قم.
هاشم رسولی، (۱۳۷۸) نمایی از زندگانی حضرت زهرا (س) و زینب کبری (س)، انتشارات سفیر صبح.
سید مهدی موسوی کاشمری، (۱۳۸۹) مقاله حضرت زهرا (س) الگوی ابرار، سایت شهر مجازی قرآن کریم وابسته به دانشگاه مجازی المصطفی.
محمدمهدی تاج لنگرودی، (۱۳۷۸) اخلاق حضرت فاطمه (س)، انتشارت واعظ.