پسِ سقیفہ: حضرت زہرا (ع) کا سیاسی احتجاج اور دفاعِ ولایت کی حکمتِ عملی

نازیہ علی نقوی-قم المقدسہ ایران

خلاصہ

یہ مقالہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے ان سیاسی مواقف اور جدوجہد کے اصول و قواعد کا جائزہ پیش کرتا ہے جو آپ (ع) نے ولایتِ امام علی (ع) کے دفاع میں اختیار فرمائے۔ اس تحقیق میں، ہم سب سے پہلے فدک، غنائمِ خیبر اور میراثِ رسول (ص) سے متعلقہ معاملات کا تجزیہ کریں گے۔ اس مقالے کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ سقیفہ کے خلاف صدیقہ کبریٰ (ع) کے تمام اعتراضات، خواہ ان کا ظاہری عنوان «الخطبة الفدکیة» (خطبہ فدکیہ) ہی کیوں نہ ہو، اپنی اساس میں مکمل طور پر سیاسی تھے اور ان کا واحد ہدف امیرالمومنین علی (ع) کی امامت و ولایت کا دفاع کرنا تھا۔ اس ضمن میں، آپ (ع) کی جدوجہد کے مختلف مراحل سے ٹھوس مثالیں پیش کی جائیں گی، جن میں مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار کے سامنے آپ (ع) کا تاریخی خطبہ؛ امام علی (ع) کے ہمراہ انصار کے گھروں پر جا کر اتمامِ حجت؛ حزن و ملال اور گریہ کی صورت میں خلیفہ اول کے خلاف آپ (ع) کا مسلسل احتجاج؛ اور بسترِ علالت پر مدینہ کی خواتین کے سامنے آپ (ع) کا اہم خطاب شامل ہیں۔ ان تمام مواقف کا تجزیہ کرتے ہوئے،  ہم نے سیرتِ فاطمی (ع) سے، جو آیہ تطہیر اور حدیثِ متواتر ثقلین کا ایک بارز مصداق ہیں، پانچ بنیادی سیاسی اصولوں کا استخراج کیا ہے: (1) دین و سیاست کا باہمی اٹوٹ رشتہ، (2) حق کی حاکمیت کے لیے غیر متزلزل عزم، (3) سیاسی اقدامات میں زمان و مکان کی عمیق پہچان، (4) قرآن و عترت کی لازمانی علیحدگی پر اصرار، اور (5) ظلم کے خلاف ثقافتِ شہادت کو فروغ دینا۔

کلیدی الفاظ:حضرت زہرا (ع)، دفاعِ ولایت، امام علی (ع)، سیاسی مواقف، خطبہ فدکیہ، سقیفہ

مقدمہ

صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی عظیم المرتبت شخصیت کے گرد لاتعداد تحریریں لکھی گئی ہیں۔ بعض کتاب ناموں میں آپ (ع) سے متعلق تقریباً دو ہزار مستقل تصانیف کا ذکر ملتا ہے  ۔

اس کے باوجود، صدیقہ کبریٰ (ع) کی آفاقی شخصیت کے پیشِ نظر، آپ (ع) کی زندگی کے مختلف پہلوؤں، خواہ وہ ثقافتی، سماجی، اقتصادی یا سیاسی ہوں، کا مکمل احاطہ ہم خاکیوں کی فکر سے ماوراء ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ (ع) کا وجودِ مقدس ثقلین کے بارز مصادیق میں سے ایک اور ثقلِ کبیر (قرآن) کا محور و مرکز ہے۔ انسانی عقل جس طرح قرآن کریم (ثقلِ کبیر) کے تمام مراتب کے ادراک سے قاصر ہے، اسی طرح ان ذواتِ مقدسہ (ثقلِ اصغر) کے وجودی مراتب کو سمجھنے سے بھی عاجز ہے۔

اب تک ثقلین کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ انسانی فہم کی حد تک ہی محدود ہے۔ ان تحریروں میں سے بہت کم تعداد نے آپ (ع) کی سیاسی زندگی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ بعض کتب نے آپ (ع) کے خطبات کے ترجمے اور شرح پر اکتفا کیا ہے  ، جبکہ دیگر نے آپ (ع) کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ضمن میں آپ (ع) کی سیاسی سیرت کا بھی ذکر کیا ہے  ۔ حالیہ دہائیوں میں کچھ ایسی تحریریں بھی سامنے آئی ہیں جنہوں نے اپنی زیادہ تر مباحث کو صدیقہ کبریٰ (ع) کی سیاسی زندگی کے لیے مختص کیا ہے  ۔

ان تمام کاوشوں کے باوجود، اس میدان میں اب بھی بہت سے خلاء اور گمشدہ حلقے  موجود ہیں جنہیں پُر کرنے کے لیے علمی تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر مصنفین نے سیاسی مسائل پر تحقیق کرنے کے بجائے، صدیقہ کبریٰ (ع) کے فضائل و مناقب بیان کرنے پر زیادہ زور دیا ہے۔

اس لحاظ سے، اس مقالے کی جدت اور انفرادیت  یہ ہے کہ یہ زیادہ تر محققین، بالخصوص اہل سنت کے نقطہ نظر کے برعکس— جنہوں نے اس بحث کو "الخطبۃ الفدکیہ" یعنی ایک مالی تنازعہ کا عنوان دیا ہے— یہ ثابت کرے گا کہ غدیرِ خم کے تاریخی واقعہ اور دیگر حساس تاریخی موڑ پر آپ (ع) کے تمام اعتراضات اور مواقف مکمل طور پر سیاسی تھے اور ان کا واحد مقصد اسلام کی قیادت و امامت، یعنی رسول خدا (ص) کے بلافصل جانشین امیرالمومنین علی(ع) کی ولایت کا دفاع کرنا تھا۔ فدک اور میراث جیسے مطالبات اس عظیم، الٰہی اور فیصلہ کن دفاع کے لیے ایک پیش خیمہ اور مقدمہ کی حیثیت رکھتے تھے۔

خلافت کا غصب اور بیتِ وحی پر یلغار

واقعہ سقیفہ کے فوراً بعد، قائم ہونے والی حکومت کے خلاف سب سے اہم اور بنیادی احتجاج وہ تھا جو اہل بیت (ع) کے حق کے لیے صدیقہ کبریٰ (ع) کی جانب سے دو بڑے اعتقادی اور سیاسی محاذوں پر سامنے آیا۔

خلیفہ اول کے کارندوں کے ذریعے صدیقہ طاہرہ (ع) کے گھر پر حملہ اور اسے نذرِ آتش کرنے کی کوشش، رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد پیش آنے والے دردناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ جب خلیفہ کو یہ اطلاع ملی کہ صحابہ کی ایک جماعت نے امیرالمومنین امام علی (ع) کے گھر میں پناہ لے رکھی ہے، تو اس نے عمر کی سربراہی میں ایک گروہ کو بیعت لینے کے لیے بھیجا اور حکم دیا کہ اگر وہ انکار کریں تو انہیں قتل کر دیا جائے اور گھر کو آگ لگا دی جائے  ۔

جب حضرت فاطمہ (ع) نے عمر کو آگ ہاتھ میں لیے دیکھا تو فرمایا: "کیا تم میرا گھر جلانے آئے ہو؟" اس نے کہا: "ہاں، مگر یہ کہ تم بھی وہی قبول کر لو جو امت نے (بیعت کی صورت میں) قبول کر لیا ہے"  ۔

صدیقہ کبریٰ (ع) دروازے کے پیچھے تشریف لائیں اور  یوں مخاطب ہوئیں:«لا‌ عهدَ‌ لی بقومٍ أسوءَ محضراً مِنکُم تَرَکتُم رَسوُلَ الله جَنازةً بینَ أیدِینا و قَطَعتُم أمرَکُم بَینَکُم لِتستأمرونا و لم تَرُدُّ لنا حقّاً»   (ترجمہ: "میں نے تم سے بدتر قوم نہیں دیکھی! تم نے رسول خدا (ص) کا جنازہ ہمارے ہاتھوں پر چھوڑ دیا اور ہم سے مشورے کے بغیر خلافت کو آپس میں تقسیم کر لیا، اور ہمارا حق ہمیں نہ لوٹایا؟!")

آپ (ع) نے مزید فرمایا: «کَاَنَّکُم لَم تَعلَموا ما قال یَومـَ غـدیر‌ خـَمٍّ، و الله لَقَد عَقَدَ لَهُ یَومَئذٍ الوِلاءَ لِیَقطَعَ مِنکُم بذلک منها الرجاء، و لکِنَّکُم قـَطَعتُمُ الأسـبابَ بَینَکم وَ بَینَ نَبِیِّکُم، والله حسیبٌ بیننا و بینکم فی الدّنیا وَ الاخرة»   (ترجمہ: "گویا تم غدیر کے دن ہونے والے اعلان اور رسول خدا (ص) کے فرمان سے بالکل بے خبر ہو۔ خدا کی قسم، اس دن (غدیر کو) امرِ ولایت کو اس قدر مضبوط اور مستحکم کر دیا گیا تھا کہ تمہارے لیے لالچ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی تھی، لیکن تم نے اس کا بھی پاس نہ رکھا اور اپنے اور اپنے نبی (ص) کے درمیان رشتوں کو کاٹ ڈالا۔ یقیناً خداوندِ عالم دنیا اور آخرت میں ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا")

بیتِ فاطمہ (ع) پر حملے کا یہ واقعہ اس قدر مشہور تھا کہ مصر کے شاعر محمد حافظ ابراہیم نے اسے خلیفہ دوم کے "افتخارات" میں شمار کرتے ہوئے کہا:

«وَ قَولَةٌ لِعَلیٍّ قالها عمرُ / اکرم مبایعها و اکرم بِمُلقیها»

«اَحرقتُ بابکَ لا أُبـقیِ عـلیک ‌‌بِها / إن لم تُبایع و بنت‌ المصطفی‌ فیها»

«من کان مثل ابی‌حَفضٍ یفوه بها / امام فارس عدنان و حـامیها»

(ترجمہ: "عمر نے علی (ع) سے جو بات کہی، اس پر کہنے والے اور سننے والے دونوں کو سلام! ۔۔۔ 'اگر تم بیعت نہیں کرو گے تو میں تمہارے گھر کو جلا دوں گا اور اس میں کسی کو باقی نہیں چھوڑوں گا، اگرچہ اس میں محمد مصطفی (ص) کی بیٹی ہی کیوں نہ موجود ہو'۔ عمر کے سوا کس میں ہمت تھی کہ وہ عدنان کے ہیرو اور محافظ (علی) کے سامنے یہ بات کہہ سکتا؟")  ۔

خلیفہ اول کا اپنی زندگی کے آخری لمحات میں یہ اقرار کرنا کہ: "کاش میں نے فاطمہ (ع) کے گھر کی حرمت کا پاس رکھا ہوتا اور اس پر حملے کا حکم نہ دیا ہوتا" ، اس حملے کے وقوع پذیر ہونے پر ایک قطعی دلیل ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے واضح طور پر گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے، بالخصوص نبی (ص) کے گھر میں داخل ہونے سے سختی سے منع فرمایا تھا  ۔

فدک: ایک مالی تنازعہ نہیں، ایک سیاسی محاذ

جیسا کہ مقدمے میں بیان ہوا، سقیفہ کے کارپردازوں کے خلاف صدیقہ طاہرہ (ع) کا موقف، جسے بعض اہل سنت محققین ایک اقتصادی اور مالی جھگڑے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، درحقیقت سو فیصد ایک سیاسی معاملہ تھا اور اس کا ہدف امیرالمومنین (ع) کی امامت و ولایت کا دفاع کرنا تھا۔

اگر صدیقہ اطہر (ع) کا قیام اور احتجاج صرف مالی مسائل اور "فدک کے غصب" پر ہوتا، تو آپ (ع) کے تمام دلائل صرف فدک اور وراثت کے گرد گھومتے۔ لیکن آپ (ع) کے خطبات، دلائل اور احتجاجات فدک کی حدود سے کہیں آگے نکل کر خلافت اور جانشینی رسول (ص) کے مرکزی نکتہ پر مرکوز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (ع) اپنے خطبوں میں امیرالمومنین (ع) کی قابلیتوں، شائستگی اور مسئلہ غدیر خم سے استناد فرماتی ہیں، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اصل مسئلہ ولایت تھا اور باقی مسائل اس کے سامنے ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔

فدک کا تاریخی پس منظر اور سیاسی اہمیت

فدک، جو مدینہ منورہ سے تقریباً 90 کلومیٹر شمال میں واقع تھا، خیبر کے یہودیوں کے زیرِ تسلط تھا۔ جب خیبر مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تو فدک کے باشندوں نے بغیر جنگ کے رسول خدا (ص) سے صلح کر لی  ۔

قرآنی قانون (سورہ حشر، آیت 6-7) کے مطابق، وہ سرزمینیں جو جنگ کے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آئیں (جنہیں "فَے" کہا جاتا ہے)، وہ رسول خدا (ص) کی ذاتی ملکیت شمار ہوتی ہیں۔ فدک بھی انہیں اموال میں سے تھا اور آنحضرت (ص) کی مِلکِ طلق (Private Property) تھا۔

فریقین کے مفسرین اور محدثین کی روایات کے مطابق، جب آیت «وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ» (سورہ اسراء: 26) نازل ہوئی، تو رسول خدا (ص) نے صدیقہ طاہرہ (ع) کو طلب فرمایا اور فدک انہیں عطا (ہبہ) کر دیا  ۔

لہٰذا، فدک پیغمبر اسلام (ص) کا ذاتی مال تھا جو آپ (ص) نے اپنی بیٹی کو بخش دیا تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تاریخی مطالعے کے مطابق، فدک کھجور کے وسیع باغات اور ابلتے چشموں پر مشتمل تھا اور اس کی سالانہ آمدنی بہت زیادہ تھی  ، جو بعض روایات کے مطابق 24 ہزار سے 70 ہزار دینار تک تھی  ۔

یہی وجہ تھی کہ جب حضرت زہرا (ع) کے احتجاج کے بعد خلیفہ اول نے اسے واپس کرنے کا ارادہ کیا تو عمر نے کہا: "اگر تم فدک واپس کر دو گے تو اسلامی لشکر کے اخراجات کہاں سے پورے کرو گے؟"  ۔ یہ آمدنی اتنی تھی کہ تنہا تمام بنی ہاشم کو سالوں تک سقیفہ کی حکومت سے معاشی طور پر بے نیاز کر سکتی تھی ۔

حکومت کا استدلال اور صدیقہ (ع) کا ردّ

سقیفہ کے کارپردازوں نے حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی املاک کو ضبط کرنے کے لیے ایک ایسی حدیث کا سہارا لیا جس کا راوی صرف خلیفہ اول خود تھا: «إنّا (الانبیاء) لا نُوَرِّث، ما تَرَکناهُ صَدَقَةً»   (ترجمہ: "ہم انبیاء وراثت نہیں چھوڑتے، جو چھوڑیں وہ صدقہ ہے")۔

یہ حدیث نہ صرف اہل بیت (ع) کے لیے اجنبی تھی، بلکہ قرآن کے صریح نصوص کے بھی خلاف تھی۔ حضرت زہرا (ع) نے اس جعلی روایت کو رد کرتے ہوئے قرآن سے دلیل دی جہاں فرمایا گیا: «وَ وَرِثَ سُلَیْمانُ داوُدَ» (اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے)  اور دیگر عمومی آیاتِ میراث جیسے «یوصیکُمُ اللهُ فی أولادِکُم للذّکَرِ مِثلُ حـَظّ الأنـثیین»  ۔

آپ (ع) نے اس تضاد پر خلیفہ اول کو مخاطب کرتے ہوئے بھرے مجمع میں فرمایا: «یابـن ابـی‌قحافة‌! أفـی کتاب الله أن تَرِث‌ أباکَ‌ و لا‌ اَرِثَ أبی؟ لَقد جِئتَ شـیئاً فـَرِیّا! أفَعَلی عَمدٍ تَرَکتُم کِتابَ اللهِ وَ نبَذتُمُوهُ وَراءَ ظهورِکُم؟»   (ترجمہ: "اے ابی قحافہ کے بیٹے! کیا یہ اللہ کی کتاب میں ہے کہ تم اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ تم نے کیسی جھوٹی اور بُری بات کہی ہے! کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اسے پسِ پشت ڈال دیا ہے؟")۔

تنازعہ صرف وراثت (ارث) کا نہیں تھا، بلکہ ملکیت (نحلہ/ہبہ) کا بھی تھا۔ جب آپ (ع) نے فدک کو بطور "ہبہ"  طلب کیا تو خلیفہ نے آپ (ع) سے گواہ طلب کیے۔ حالانکہ آپ (ع) خود آیتِ تطہیر «إنّما یریدُ الله‌ لِیذهـبَ‌ عـَنکم الرِّجسَ أهلَ البیتِ و یطهّرَکُم تَطهیراً»   کی روشنی میں معصومہ تھیں، پھر بھی آپ (ع) نے امام علی (ع) اور ام ایمن کو بطور گواہ پیش کیا، لیکن خلیفہ نے ان کی گواہی کو بھی رد کر دیا  ۔

کیا فدک کا مسئلہ سیاسی نہیں تھا؟

ان دلائل اور حکومت کے متضاد طرزِ عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیتِ عصمت و طہارت (ع) کی املاک کو ضبط کرنا ایک مکمل سیاسی اقدام تھا۔ حکومت کا مقصد اس اقدام کے ذریعے اہل بیت (ع) کو دنیوی  مال و اسباب سے تہی دست کرنا تھا، تاکہ لوگ خاندانِ عصمت و طہارت (ع) کے گرد سے منتشر ہو جائیں اور سقیفہ کے اہلکاروں کی طرف مائل ہوں  ۔

بنا بریں، فدک کا مسئلہ محض ایک مالی اختلاف نہیں، بلکہ ایک بہت بڑا سیاسی معاملہ تھا، جس کے پسِ پردہ امیرالمومنین (ع) کی ولایت، رسول خدا (ص) کی جانشینی اور غدیرِ خم کا عظیم واقعہ موجود تھا۔ سقیفہ کے کارپرداز، خلافت کے معاملے میں علی (ع) کی حقانیت اور اسی طرح فدک کے معاملے میں صدیقہ طاہرہ (ع) کی صداقت کو جاننے کے باوجود، آپ (ع) کے جائز مطالبات کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔

یہ انکار اس لیے تھا کہ اگر اس دن خلیفہ، حضرت زہرا (ع) کی بات مان لیتا، تو اسے اگلے دن خلافت، امامت اور رسول خدا (ص) کی سیاسی جانشینی کے معاملے میں بھی آپ (ع) کے دلائل کو تسلیم کرنا پڑتا اور اسے علی (ع) کو واپس کرنا پڑتا۔ ابن ابی الحدید اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں: "اگر وہ اس دن فدک واپس کر دیتا، تو اسے کل خلافت بھی واپس کرنی پڑتی"  ۔ اسی لیے انہوں نے پہلے دن سے ہی قرآن اور عترت (ثقلین) کے مدِ مقابل کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

سیاسی جدوجہد کے چار مراحل

حضرت فاطمہ زہرا (ع)، جو خود ائمہ معصومین (ع) کے لیے حجتِ عملی تھیں، کی جدوجہد کے کئی پہلو ہیں۔ آپ (ع) نے ولایت کے دفاع کے لیے ایک کثیر الجہتی حکمتِ عملی اپنائی، جس کے چار نمایاں مراحل درج ذیل ہیں:

1۔ مسجد نبوی میں عظیم خطبہ (خطبہ فدکیہ)

صدیقہ کبریٰ (ع) کا سب سے اہم، واضح اور پرجوش موقف سقیفہ کے کارپردازوں اور خلیفہ کے خلاف مسجد رسول (ص) میں دیا جانے والا وہ خطبہ تھا جو ولایت اور امیرالمومنین علی (ع) کی انتصابی و انتخابی جانشینی کے دفاع میں تھا۔ یہ خطبہ، جو "خطبہ فدکیہ" کے نام سے مشہور ہوا، قرآنی معارف، سنتِ نبوی اور بے مثال فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے۔

الف۔ احکام کا فلسفہ اور حاکم کی اہلیت:

آپ (ع) نے اپنے خطبے میں ایمان، نماز اور زکوٰۃ کا فلسفہ بیان فرمایا۔ درحقیقت، آپ (ع) یہ واضح کرنا چاہتی تھیں کہ حکومت کی تشکیل کے لیے ایسے حاکم کی ضرورت ہے جو اسلام کی گہری معرفت رکھتا ہو، ورنہ معاشرہ انحراف کا شکار ہو جائے گا، جیسا کہ قرآن نے خود سوال اٹھایا: «أفمن یهدی الی الحقّ‌ أحقّ أن یتَّبَعَ أمـَّن لا یهـِدّی إلاّ أن یهدی» (کیا وہ جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے، پیروی کا زیادہ حقدار ہے، یا وہ جو خود ہدایت نہیں پا سکتا جب تک اسے ہدایت نہ دی جائے؟)  ۔

ب۔ امامت کا فلسفہ (امن کا محور):

آپ (ع) نے ارکانِ اسلام کے ساتھ امامت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: «فَجَعَلَ‌ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم‌ مِنَ‌ الشِرکِ۔۔۔ و طاعَتَنا نظاماً لِلمِلَّة و إمامَتَنا أماناً من الفُرقَةِ»   (ترجمہ: "خداوند نے ایمان کو تمہارے لیے شرک سے پاکیزگی کا ذریعہ بنایا۔۔۔ اور ہماری اطاعت کو ملتِ اسلام کے نظم کا باعث اور ہماری امامت کو تفرقے اور اختلاف سے امان کا ذریعہ قرار دیا ہے")۔

آپ (ع) نے واضح کیا کہ امامت، نبوت کی طرح، خدا اور رسول (ص) کی جانب سے ایک انتصاب (Appointment) ہے، نہ کہ عوام کا انتخاب (Selection)۔

ج۔ منطقِ سقیفہ کا ردّ:

سقیفہ میں، مہاجرین اور انصار دونوں اپنی اپنی "سبقت" اور "خدمات" کی بنیاد پر خلافت پر اپنا حق جتا رہے تھے۔ حضرت فاطمہ (ع) نے اس منطق کو رد کرتے ہوئے امیرالمومنین علی (ع) کی منفرد اور بے مثال سبقت، جانبازی اور قربانیوں کو بطور حجت پیش کیا۔ آپ (ع) نے فرمایا کہ جب علی (ع) دین کی سربلندی کے لیے جہاد کر رہے تھے، اس وقت باقی لوگوں کا کردار کیا تھا:

«مَکدُوداً‌ فِی‌ ذاتِ الله، مجتهداً فی أمر ِاللهِ، قَریباً مـِن رسـولِ اللهـِ۔۔۔ لا‌ تَأخُذُهُ‌ فی‌ الله لَومَة لائمٍ»   (ترجمہ: "وہ (علی) اللہ کی ذات کے لیے مشقت اٹھانے والے، اللہ کے امر میں کوشش کرنے والے، رسول اللہ (ص) کے قریب ترین۔۔۔ اور اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے والے تھے")۔

جبکہ آپ (ع) نے دوسروں کے کردار کو یوں بیان کیا: «وَ أَنتُم فـی‌ رِفـاهیّةٍ مـِن العَیشِ و ادِعونَ فاکِهونَ آمِنون، تَتَرَبَّصونَ بِنا الدَّوائِرَ وَ تَتَوَکَّفُونَ الأخبارَ وَ تَنکِصُونَ عِندَ النزال وَ تَفِرّونَ مِنَ‌ القـِتالِ‌»   (ترجمہ: "جبکہ تم (اس وقت) عیش و عشرت، خوشگذرانی اور امن و امان کی زندگی گزار رہے ہوتے تھے، ہمارے لیے برے واقعات کا انتظار کرتے۔۔۔ اور جنگ کے وقت فرار اختیار کر جاتے تھے")۔

د۔ سقیفہ کی حقیقت (نفاق اور فتنہ):

آپ (ع) نے سقیفہ کے واقعے کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے "نفاق" قرار دیا جو رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد ظاہر ہوا  ۔ آپ (ع) نے اسے "شیطان کی پکار پر لبیک"   کے مترادف قرار دیا۔ جب سقیفہ والوں نے یہ عذر پیش کیا کہ انہوں نے "فتنے کے خوف" سے یہ قدم اٹھایا، تو آپ (ع) نے فرمایا: «إبتداراً زَعَمتُم خَوفَ الفِتنَةِ، ألا‌ فی الفِتنَةِ سَقَطوا»   (ترجمہ: "تم نے فتنے کے خوف کا بہانہ بنا کر جلدبازی کی، آگاہ رہو کہ تم (فتنے سے بھاگے نہیں بلکہ) خود فتنے کے اندر جا گرے ہو!")

ھ۔ ایک عجلت پسندانہ اقدام:

آپ (ع) نے اس عمل کو ایک عجلت پسندانہ اقدام قرار دیا اور فرمایا: «هذا والعَهدُ قَریبٌ وَ الکَلْمـُ رَحـیبٌ وَ الجَرحُ لَمّا یُقبَرُ» (یہ سب اس حال میں ہوا کہ زمانہ (وفاتِ رسول سے) قریب تھا، زخم گہرا تھا، اور لاش ابھی دفن بھی نہ ہوئی تھی)  ۔

2۔ انصار کے دروازوں پر دستک (عوامی حمایت کی کوشش)

جدوجہد کا دوسرا مرحلہ، سقیفہ کے خلاف عوامی حمایت کو متحرک کرنا تھا۔ حضرت (ع)، امیرالمومنین (ع) کے ہمراہ، اس حالت میں کہ آپ (ع) حملہ آوروں کے ہاتھوں زخمی ہو چکی تھیں، راتوں کو انصار کے گھروں کا دروازہ کھٹکھٹاتیں اور ان سے پامال شدہ حقوق (یعنی خلافتِ علی (ع)) کی بحالی کے لیے مدد طلب کرتیں  ۔

انصار آپ (ع) کے جواب میں کہتے: "اگر علی (ع) اس شخص (خلیفہ اول) سے پہلے ہمارے پاس آتے تو ہم کسی اور کو منتخب نہ کرتے۔"

اس پر حضرت امیر (ع) جواب دیتے: "کیا میں رسول اللہ (ص) کا جنازہ گھر میں زمین پر چھوڑ دیتا اور انہیں دفن نہ کرتا اور حکومت کے لیے جھگڑا کرنے نکل پڑتا؟!"

اور زہرائے اطہر (ع) تائید فرماتیں: "ابوالحسن (ع) نے وہی کیا جو ان کے شایانِ شان تھا، اور انہوں نے (سقیفہ والوں نے) وہ کیا جس کا حساب اللہ ان سے لے گا"  ۔

آپ (ع) نے انصار کو ان کی اس عہد شکنی پر ملامت کی جو انہوں نے بیعتِ عقبہ میں رسول خدا (ص) سے کیا تھا کہ وہ آنحضرت (ص) اور ان کے اہل بیت (ع) کا دفاع ویسے ہی کریں گے جیسے وہ اپنے اہل و عیال کا کرتے ہیں۔ آپ (ع) نے مسجد میں انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: «یا مَعشَرَ ألنَّقیبَةِ! و أَعضاءَ المِلَة و حضَنَةَ الاِسلامِ، مـا هـذِهِ الغـَمیزةُ فِی حَقّی و السِّنَةُ فی ضَلامَتی؟۔۔۔ ءَأُهضَمُ تُراثَ ابی‌؟ و أنتم بِمرائیً وَ مَسمَع»   (ترجمہ: "اے جوانمردو! اے ملت کے بازوؤ اور اسلام کے محافظو! میرے حق کے معاملے میں یہ سستی اور غفلت کیسی ہے؟ اور میری مظلومیت پر یہ اونگھ کیوں؟۔۔۔ کیا میرے باپ کی میراث تمہاری آنکھوں کے سامنے لوٹی جا رہی ہے، جبکہ تم دیکھ اور سن رہے ہو؟")

3۔ گریہ و حزن کا سیاسی احتجاج

جدوجہد کا تیسرا مرحلہ وہ تھا جب آپ (ع) نے اپنے غم اور آنسوؤں کو ایک سیاسی ہتھیار میں تبدیل کر دیا۔ آپ (ع) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں کہ رسول خدا (ص) اور علی مرتضیٰ (ع) کی تمام محنتیں، بعض لوگوں کی بے اعتنائی، بے تقوائی، نفاق اور حرص کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہیں۔ جب ظاہری حمایت کے تمام راستے مسدود نظر آئے، تو آپ (ع) نے اپنے "گریہ" کے ذریعے اپنا احتجاج مسلمانوں اور آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔

آپ (ع) اس قدر گریہ فرماتیں کہ آپ (ع) کا شمار دنیا کے "بکّائین" (بہت رونے والوں) میں ہونے لگا۔ یہ احتجاج اتنا کارگر ثابت ہوا کہ سقیفہ کی حکومت کے لیے یہ ایک مسئلہ بن گیا۔ لوگوں نے آ کر شکایت کی کہ آپ (ع) کا گریہ انہیں بے چین کرتا ہے۔ انہوں نے آپ (ع) کے رونے پر پابندی لگانے یا اس کے لیے اوقات مقرر کرنے کی تجویز دی  ۔ اس کے بعد آپ (ع) مدینہ سے باہر احد میں حضرت حمزہ سید الشہداء (ع) کی قبر پر جا کر گریہ فرماتیں، جو بعد میں "بیت الاحزان" (غم کا گھر) کی تعمیر کا سبب بنا۔ یہ گریہ محض ذاتی غم نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی اعلان تھا کہ مدینہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

4۔ مدینہ کی خواتین سے آخری خطاب

جدوجہد کا چوتھا مرحلہ آپ (ع) کی علالت کے دوران پیش آیا۔ جب مدینہ کی خواتین آپ (ع) کی عیادت کے لیے حاضر ہوئیں، تو آپ (ع) نے اس موقع کو بھی غنیمت جانا اور ولایت کے دفاع میں ایک انتہائی بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔

آپ (ع) نے ان کے مردوں سے اپنی شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا اور فرمایا: «أصبحتُ و اللهِ عائِفَةً لِدنیا کُنَّ، قالِیَةً لِرِجالِکُنَّ لَفَظتُهُم بَعدَ أن عَجَمتُهُم وَ شَنَأتُهُم بَعدَ أن سَبَرتُهُم فـَقُبحاً لِفـُلول الحَدِّ وَ الّلعبِ بَعدَ الجدِّ»   (ترجمہ: "خدا کی قسم، میں تمہاری دنیا سے بیزار ہوں اور تمہارے مردوں سے سخت ناراض ہوں! میں نے انہیں آزمانے کے بعد دور پھینک دیا اور انہیں جانچنے کے بعد ان سے شدید نفرت کرتی ہوں۔ چُھری کی دھار کُند ہونے پر اور سنجیدگی کے بعد کھیل کود میں پڑ جانے پر لعنت ہو!")

آپ (ع) نے امامت کے اس انحراف کا ذمہ دار خود عوام اور صحابہ کی کوتاہی کو قرار دیا۔ اس خطبے میں آپ (ع) نے اس انحراف کے اسباب کا گہرا تجزیہ پیش کیا کہ لوگوں نے علی (ع) کو کیوں مسترد کیا: «وَ ما الّذِی نَقَمُوا مِن ابی‌الحَسَنِ؟ نَقَموا وَ اللهِ نکیر سَیفِهِ وَ قِلَّة مُبالاتِهِ لِحَتفِهِ وَ شِدَّةِ وَطأتِهِ و نـکالِ وَقـعَتِهِ وَ تَنَمُّرِهِ فـی ذاتِ اللهِ»   (ترجمہ: "ان لوگوں نے ابوالحسن (علی) میں کون سا عیب پایا تھا؟ خدا کی قسم، وہ ان کی تلوار کی تیزی، موت کے سامنے ان کی بے خوفی، ان کی سخت گیری، ان کی کاری ضرب اور خدا کی ذات میں ان کی شدت سے ناراض تھے")۔

اسی خطبے میں آپ (ع) نے مستقبل کے بارے میں اپنی مشہور پیشین گوئی فرمائی: «أما لَعَمری لَقَد لِقحَت فَنَظَرةً رَیثَما تُنْتِجُ، ثم اجتَلِبوا ملءَ القـَعْبِ دماً عَبیطاً وَ ذُغافاً مبیداً۔ هنالک یَخسرُ المبطلون۔۔۔ وَ ابشروُا‌ بسیف‌ صارمٍ‌ و سِطوَةٍ مُعتَدٍ غاشمٍ وَ بَهرَجٍ‌ شاملٍ‌ وَ‌ استبدادٍ مِن الظالمین»   (ترجمہ: "آگاہ رہو! میری جان کی قسم، خلافت کی یہ اونٹنی (جو تم لے گئے ہو) حاملہ ہے۔۔۔ انتظار کرو، عنقریب یہ بچہ جنے گی۔ تم اس کے تھنوں سے دودھ کے بجائے تازہ خون اور مہلک زہر دُوہو گے۔۔۔ اس وقت اہلِ باطل خسارے میں رہیں گے۔۔۔ ایک کاٹ دار تلوار، ایک ظالمانہ تسلط، ایک ہمہ گیر فتنے اور ظالموں کے ظلم کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔")

مورخین کے مطابق، یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی؛ مالک بن نویرہ کا قتل، احادیث گھڑنا، منبروں سے علی (ع) پر رسمی طور پر لعنت، حجاج کے مظالم، یزید کے دور میں واقعہ حرہ، امام حسین (ع) کا قتل، اور ابوذر  جیسے جلیل القدر صحابی کی جلاوطنی، یہ سب اسی انحراف کا نتیجہ تھا جس کی جڑیں ولایت کو اس کے اصل مرکز سے ہٹانے میں پیوست تھیں۔

فاطمی سیاسی مکتب کے بنیادی اصول

صدیقہ طاہرہ (ع) کی اس مختصر مگر پر برکت زندگی اور جدوجہد کا تجزیہ کرنے سے، آپ (ع) کے سیاسی مکتبِ فکر کے چند بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:

1۔ دین و سیاست کی یگانگت

پہلا اصول جو آپ (ع) کی سیرت سے ملتا ہے وہ دین اور سیاست کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ آپ (ع) کی تمام جدوجہد اسی اصول پر مبنی تھی کہ حکومت کا قیام، عدل کا نفاذ، حدود کا اجراء، اور وسائل کی عادلانہ تقسیم، یہ سب دین کا حصہ ہیں اور دین سے جدا نہیں ہیں۔

2۔ حق پر قاطعیت اور عدم مصالحت

دوسرا اصول، حق کی حاکمیت کے راستے میں غیر متزلزل عزم اور ظالموں کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کرنا ہے۔ آپ (ع) نے سقیفہ کے کارپردازوں کے ساتھ مصالحت کرنے سے قطعی انکار کر دیا۔ آپ (ع) نے شہادت تک امامِ معصوم (ع) کی ولایت کا بھرپور دفاع کیا اور آخری لمحے تک غاصبوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ آپ (ع) نے اپنی شہادت کے بعد بھی اس جدوجہد کو جاری رکھا؛ آپ (ع) کا رات کی تاریکی میں دفن ہونا، آپ (ع) کی قبر کا آج تک مخفی رہنا، اور آپ (ع) کا ان لوگوں پر اپنی آخری سانسوں تک ناراض رہنا، قیامت تک کے لیے ظلم کے خلاف ایک دائمی احتجاج ہے۔

3۔ زمان شناسی اور موقعیت شناسی

آپ (ع) کی سیاسی حکمتِ عملی کا ایک اہم اصول آپ (ع) کی زمان شناسی (Timing) اور موقعیت شناسی (Strategy) تھی۔ آپ (ع) نے احتجاج کے لیے مسجد کا انتخاب کیا؛ خطبے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا جب مہاجرین و انصار کی بڑی تعداد موجود تھی؛ اپنے خطبے میں رسول خدا (ص) کی وفات کے تازہ غم کو ابھارنے کے لیے «انا فاطمۃ بنت محمد» (میں محمد (ص) کی بیٹی فاطمہ ہوں) جیسے جذباتی اور منطقی جملوں کا استعمال کیا؛ اور اپنے دفن کے عمل کو اس طرح ترتیب دیا کہ قیامت تک ظالموں کا ظلم آشکار رہے۔

4۔ قرآن و عترت کی ناقابل علیٰحدگی

آپ (ع) کی پوری جدوجہد حدیثِ متواتر "ثقلین" کی عملی تفسیر تھی۔ آپ (ع) نے غاصبوں کے سامنے یہ کہہ کر ان کی علمی قابلیت کو چیلنج کیا:

«أم أَنتُم اعلم بِخُصوصِ القرآنِ وَ عُمومِه مِن ابـی‌وَ‌ ابـنِ عَمّی»   (ترجمہ: "کیا تم قرآن کے عموم و خصوص کو میرے والد (رسول خدا) اور میرے چچا زاد (علی) سے زیادہ جانتے ہو؟")

آپ (ع) نے ثابت کیا کہ امامت ایک الٰہی منصب ہے اور قرآن کی تفسیر و نفاذ، عترت کے بغیر ناممکن ہے۔ امامت، جیسا کہ امام رضا (ع) سے منقول ایک جامع حدیث میں ہے، محض عوامی انتخاب نہیں بلکہ: «إن الإمامة هی منزلة الأنبیاءِ وَ إرثُ الأوصیاءِ، إنّ الإمامة خلافةُ اللهِ‌ و خلافة‌ الرّسولِ۔۔۔ إنّ الإمامَةُ زَمامُ الدینِ و نِظامُ‌ المسلمینَ‌ و صلاح الدنیا وَ عزُّ المـؤمنین۔۔۔» (بلاشبہ امامت انبیاء کا مقام اور اوصیاء کی میراث ہے، امامت اللہ اور رسول (ص) کی خلافت ہے۔۔۔ امامت دین کی باگ ڈور، مسلمانوں کا نظام، دنیا کی اصلاح اور مومنین کی عزت ہے۔۔۔)  ۔

5۔ ظلم کے خلاف ثقافتِ شہادت

صدیقہ طاہرہ (ع) نے اپنے قول و عمل سے ظلم کے خلاف جہاد کرنے اور شہادت کو گلے لگانے کی ثقافت کو رائج کیا۔ آپ (ع) نے خود کو اور اپنے فرزند (محسن (ع)) کو قربان کر کے، شہادت کو ایک عمومی ثقافت میں بدل دیا، جو آج تک تاریخِ تشیع میں جاری و ساری ہے۔

نتیجہ 

گزشتہ تمام مباحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ صدیقہ طاہرہ (ع) نے رسول خدا (ص) کی شہادت اور سقیفہ کے واقعے کے بعد، امام علی (ع) کی امامت و رہبری کا اپنے پورے وجود کے ساتھ دفاع فرمایا اور اسی راہ میں آپ (ع) اور آپ (ع) کے فرزند محسن (ع) شہید ہوئے۔ آپ (ع) نے اپنے اعتراضات کو چار مراحل میں منظم کیا: (الف) مسجد نبوی میں خطبہ اور سقیفہ پر اتمامِ حجت، (ب) مدینہ کی خواتین کے سامنے خطاب، (ج) مسلسل گریہ، (د) انصار کے گھروں پر جا کر مدد طلب کرنا۔ حضرت زہرا (ع) نے ان اقدامات کے ذریعے سقیفہ اور اس کے بانیوں کی اصل حقیقت کو آشکار کر دیا تاکہ آنے والی نسلیں حق کو پہچان سکیں۔ آپ (ع) نے اسلامِ نابِ محمدی (ص) کے حقائق کو بیان کیا اور امیرالمومنین (ع) کی بے مثال اور آسمانی شخصیت کو متعارف کروا کر ان کی امامت و رہبری کو ثابت کیا اور مخالفین کو رسوا کر دیا۔

یہ مقالہ اس نظریے کو ثابت کرتا ہے کہ آپ (ع) کی جدوجہد، بعض مصنفین کے نظریے کے برعکس، محض مالی نہیں تھی، بلکہ اس جدوجہد کا بنیادی ہدف، خدا اور رسول (ص) کے منتخب کردہ معصوم امام (ع) کی سیاسی قیادت اور امامت کا دفاع کرنا تھا۔ آپ (ع) نے سقیفہ کے واقعات کا تجزیہ کر کے، اقتدار پرست اور دنیا طلب عناصر کے چہروں سے پردہ اٹھایا۔ فاطمہ زہرا (ع) نے اہل بیتِ عصمت و طہارت (ع) کے بلند مقام کو بیان کر کے "شیعی مکتبِ فکر" (Doctrine of Shia) کی فکری بنیادیں رکھیں اور حدیثِ ثقلین کی روشنی میں قرآن و عترت کے ساتھ رہنے کی دائمی ضرورت اور فلسفے کو بیان فرمایا۔

آخر میں، زہرائے اطہر (ع) کی عصمت، جو آیہ تطہیر (احزاب: 33) اور حدیثِ ثقلین (جس کے مطابق آپ (ع) قرآن سے جدا نہیں ہو سکتیں) سے ثابت ہے، آپ (ع) کی اس تمام سیاسی جدوجہد کو "حجیت" (Authoritative Proof) عطا کرتی ہے، اور ولایتِ اہل بیت (ع) کو قبول کرنے کے لیے تمام مسلمانوں پر حجت تمام کر دیتی ہے۔

________________________________________

فہرستِ منابع 

1. قرآن مجید۔

2. نہج البلاغہ۔

3. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1385ق۔

4. ابن ابی طیفور، احمد، بلاغات النساء، قم، بی تا۔

5. ابن اثیر، عزالدین علی، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، 1423ق۔

6. ابن اثیر، عزالدین علی، الکامل فی التاریخ، بیروت، 1408ق۔

7. ابن اثیر، مبارک، النہایۃ فی غریب الحدیث، قاہرہ، 1385ق۔

8. ابن حنبل، احمد، المسند، بیروت، دار صادر، بی تا۔

9. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول من آل الرسول (ص)، قم، النشر الاسلامی، 1404ق۔

10. ابن شہر آشوب، محمد بن علی السروی، المناقب، قم، انتشارات علامہ، بی تا۔

11. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، بیروت، دارالکتاب، 1403ق۔

12. ابن قتیبہ، دینوری، مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، مصر، بی تا، قم، منشورات شریف الرضی، 1370ق۔

13. ابن واضح یعقوبی، تاریخ یعقوبی، نجف مکتبۃ المرتضویۃ، 1358ق۔

14. ابونعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، حلیۃ الاولیاء و طبعات الاصفیاء، بیروت، دارالفکر، 1416ق۔

15. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، بیروت، دارالکتاب الاسلامی، 1401ق۔

16. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، مرکز الغدیر، 1416ق۔

17. انصاری، المولی محمد بن علی احمد القراچہ داغی التبریزی، اللمعۃ البیضاء فی شرح خطبۃ الزہرا (ع)، تحقیق سید ہاشم میلانی، قم، نشر الہادی، 1418ق۔

18. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1422ق۔

19. تستری، قاضی سید نوراللہ، احقاق الحق و اذہاق الباطل، تحقیق: قم، آیت اللہ مرعشی نجفی، بی تا۔

20. جوہری، خلیفہ اول، السقیفہ و فدک، تحقیق: محمد ہادی الامینی، بیروت شرکۃ الکتبی، 1413ق۔

21. حاکم حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل، لقواعد التفضیل، تہران، 1411ق۔

22. حافظ محمد ابراہیم، دیوان شاعر نیل، مصر، بی تا۔

23. حلبی شافعی، علی بن برہان الدین، السیرۃ الحلبیۃ، مصر، مصطفی البابی، 1349۔

24. حلی، حسن، نہج الحق و کشف الصدق، قم، دارال ہجرۃ، 1407ق۔

25. حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی تا۔

26. خوارزمی، موفق، المناقب، قم، جامعہ مدرسین، 1411ق۔

27. راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، قم، انتشارات مصطفوی، بی تا۔

28. رحمانی، احمد، فاطمۃ بہجۃ قلب المصطفی، تہران، المنیر للطباعۃ و النشر، 1420ق۔

29. سبط ابن جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن، تذکرۃ الخواص، نجف، 1369ق۔

30. سمہودی، علی بن احمد، وفاء الوفاء، بیروت، دارالاحیاء للتراث العربی، 1401ق۔

31. سیوطی، عبدالرحمن، الدر المنثور فی التفسیر المأثور، بی جا، بی تا۔

32. شامی یوسف، الدر النظیم، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1420ق۔

33. شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، مصر، 1317ق۔

34. صدر، سید محمدباقر، فدک فی التاریخ، تحقیق: عبدالجبّار شرارہ، قم، مرکز الغدیر، بی تا۔

35. صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، الخصال، قم، 1362۔

36. صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، عیون الاخبار، ترجمہ: علی اکبر غفاری، تہران، 1380۔

37. صدوق، محمد بن علی بن حسن قمی، معانی الاخبار، تہران، مکتبۃ الصدوق، 1379۔

38. طبرسی، احمد، الاحتجاج، ترجمہ و متن احتجاج: بہزاد جعفری، تہران، 1381۔

39. طبرسی، امین الاسلام، اعلام الوری باعلام الہدی، تہران، بی تا۔

40. طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، روایع التراث العربی، بی تا۔

41. طبری، محمد بن جریر ابن رستم، دلائل الامامۃ، قم، منشورات الرضی، 1363۔

42. طوسی، محمد بن الحسن، الامالی، قم، دارالثقافۃ، 1414ق۔

43. طوسی، محمد بن الحسن، تلخیص الشافی، قم، دارالکتب، 1396ق۔

44. عاملی، سید جعفر مرتضی، رنجہای حضرت فاطمۃ زہراء، ترجمہ محمد سپہری، قم 1381۔

45. فیروزآبادی، سید مرتضی، فضائل الخمسۃ من الصحاح الستۃ، قم، انتشارات جامعہ مدرسین 1422ق۔

46. قزوینی، محمد کاظم، فاطمۃ الزہراء من المہد الی اللحد، قم، بصیرتی، 1414ق۔

47. قمی، عباس، سفینۃ البحار، قم، دارالاسوۃ، 1414ق۔

48. قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ، قم، دارالاسوۃ، 1406ق۔

49. کلینی، محمد بن یعقوب، الاصول من الکافی، ترجمہ و شرح: محمد باقر کمرہ ای، تہران، اسوہ، 1379ق۔

50. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دارالتعارف، 1421ق۔

51. محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ، تہران، دارالکتب۔

52. مرعشی نجفی، ملحقات احقاق الحق، قم، مکتبۃ النجفی، 1418ق۔

53. مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، بیروت، 1422ق۔

54. مظفر، محمدحسین، عقاید الامامیۃ، قم، موسسۃ الامام علی (ع)، 1417ق۔

55. مظفر، محمد حسین، دلائل الصدق، قم، بصیرتی، 1395ق۔

56. منتظری، حسین علی، شرح خطبہ ہای فاطمۃ زہرا (ع)، قم، 1374۔

57. موسوی سید مرتضی علم الہدی، الشافی فی الامامۃ، تہران، 1410ق۔

58. موسوی، سید شرف الدین، المراجعات، تہران، اسوہ، 1422ق۔

59. ہلالی، سلیم بن قیس، اسرار آل محمد (ص)، ترجمہ اسماعیل انصاری، قم، 1381۔

60. کاشف الغطاء، محمدحسین، اصل الشیعۃ و اصولہا، بیروت، مؤسسہ اعلمی، 1399ق۔