*🌟 امام مہدی(عج) خدا کے منتخب اورتمام علوم کے وارث*

🌟 آج کی کلاس میں امام زمانہ (عج)کے بارے میں دو اہم خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہےایک آپ کا اللہ کی جانب سے منتخب کیا جانا اور دوسرے آپ تمام علوم کا وارث ہونا ہے۔ ان دونوں خصوصیات کے بارے میں پیغمبراکرم(ص)نے اس طرح بیان فرمایا ہےکہ: 👇

*أَلا إِنَّهُ خِیَرَةُالله وَ مُخْتارُهُ؛ جان لو کہ ہمارا مہدی) عج( ہر اعتبار سے بہترین اور اللہ کی طرف سے منتخب کیا ہوا ہے۔*

اسی طرح آگے فرمایا کہ:

*أَلا إِنَّهُ وارِثُ کُلِّ عِلْمٍ وَالْمحیطُ بِکُلِّ فَهْمٍ.  جان لوکہ ہمارا مہدی (عج)تمام علوم کا وارث ہوگا اور ہرطرح فکر و سمجھ پر قابض ہوگا۔*

⭕️ پیغمبر اکرم ص کےیہ جملے بہت سی باتو ں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں؛ جن میں سے اہم یہ ہےکہ:

۱۔ امام مہدی (عج)، اپنے زمانے میں ہر لحاظ سے سب سے بہترین ہے لہذا جسمانی، روحانی اور نورانی لحاظ سے تمام کمالات کا حامل ہیں اوراسی لئے امامت وخلافت الہیہ کے آخری وارث کے عنوان سے آپ کا انتخاب ہوا ہے اور آپ کو  تمام انسانیت کے لئے نمونہ عمل اور آئیڈیل بنایا گیا ہے۔

۲۔ امام مہدی(عج)، چونکہ اپنے زمانے میں سب سےبہترین اور اللہ کی طرف سے منتخب ہیں لہذا آپ بھی علم، عصمت، قدرت و اختیارات وغیرہ   میں تمام معصومین علیہم السلام کی طرح ہیں۔

۳۔  پیغمبر اکرم(ص) نے امام مہدی (عج)کے وسیع علم اورلوگوں کی تمام افکاراور باطن سے آگاہی کے بارے میں جو صفت بتائی ہے اس کو اگر روایات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ امام مہدی(عج) چونکہ تمام پیغمبروں، نبیوں اور اماموں کے وارث ہیں لہذا ان سب کے علوم و معارف، ان سب کی لائی ہوئی آسمانی کتابوں اور نازل ہونے والے علوم و معارف سے آپ آگاہ ہونگے، سب کے وارث ہونگے  [بحارالانوار، ج۲۶، ص۲۴۸]۔ لیکن اس بات کا ایک باطنی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امام مہدی (عج)کو ہر طرح کا ضروری علم چاہے قدیم ہو یا جدید، ظاہری ہو یا باطنی، دینی ہو یا دنیوی سب عطا کئے ہوئے ہے اس لئے کہ آپ آخری جانشین اور خلیفہ  ہیں اور آپ کا زمانہ علوم کی ترقی میں بہت آگے نکل چکا ہے۔

۴۔ امام مہدی(عج)کے علم و آگاہی کی خاص بات یہ ہے کہ آپ کا علم دوسرے معصومین علیہم السلام کی طرح صرف دینی علوم تک محدود نہیں ہے بلکہ جتنے بھی مسائل اور جو بھی امور علم و فہم و فکر کے دائرے میں آسکتے ہیں، آپ ان سب سے آگاہ ہیں۔ لہذا ایسا نہیں ہے کہ عام لوگوں کے پاس جو علم و سمجھ ہوگی، اس سے آپ آگاہ نہیں ہونگے بلکہ حدیث میں اس مطلب کی طرف خاص تاکید ہے کہ:  *" ہرطرح کی فکر و سمجھ پر آپ کاقبضہ ہوگا"*اس لئے دنیا میں جو بھی صحیح اور حقیقی علم ملا ہے وہ سب اللہ کے رہبروں کا بانٹا ہوا صدقہ ہے۔ سب کو ان ہی کے در سے ملا ہے۔ لہذا عام لوگوں کے علم کی ان کو ضرورت نہیں ہے بلکہ لوگوں کو ان کے علوم کی ضرورت ہے۔

۵۔ پیغمبر نے دوسرے جملے کے آخری حصہ میں امام مہدی(عج)کی جو صفت بیان فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ "لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی ہر فکر اور لوگوں کے سمجھ میں آنے والی ہر سمجھ کا بھی علم امام مہدی(عج)کے پاس ہوگا" یعنی علم تو بڑی چیز ہے، ہمارا امام لوگوں کے ذہنوں اور فکروں سے بھی آگاہی رکھتا ہے۔ اور اسے جان لیتا ہے۔ یہ بات اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "لوگوں کی آنکھیں اللہ کو نہیں دیکھ سکتی ہیں لیکن وہ سب کو دیکھتا ہے"۔ [سورہ انعام، آیت۱۰۳]۔

6۔لوگوں کے حالات اور ان کی اخبار سے آگاہی ہر وقت امام زمانہ( عج) کے پاس ہوتی ہےجیسا کہ شیخ مفید نامی بزرگ شیعہ عالم سے امام (عج)نے ایک خط میں فرمایا کہ:«فانّا نُحیط علما باَنبائکم و لا یعزب عنّا شی‏ءٌ من أخبارکم»ہم تم لوگوں کے حالات اور تمہارے بارے میں خبروں سے آگاہ ہیں اور تم لوگوں کی کوئی بھی خبر و حالت ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔(احتجاج طبرسی، ج ۲ ص ۵۹۵)۔

۷۔ امام مہدی(عج) کے لئے علم کی فراوانی اور تمام امور پر احاطہ رکھنے کی خصوصیت ہے جس کی بناپر آپ تمام ادیان و مذاہب اور مکاتب فکر کو ایک کردیں گے اور سب کی ہدایت کرکے پوری دنیا میں فقط اور فقط اسلام کا غلبہ قائم کریں گے۔