*🌟 صاحبان فضل اور جاہلوں کےساتھ امام مہدی(عج) کا سلوک*

🌟 گذشتہ کلاس میں امام زمانہ (عج)کے بارے میں بیان کیا گیا تھا کہ آپ فیوض و برکات الہی کے لئے واسطہ ہوں گے اور آپ کے دوران حکومت لوگ برکات الہی سے مالامال ہونگے۔ آج کی کلاس میں امام کی ایک اور خصوصیت کا ذکر کیا جارہا ہے جس کے بارے میں پیغمبراکرم (ص) نے خطبہ غدیر میں فرمایا ہے کہ: 👇

*«أَلا إِنَّهُ یَسِمُ کُلَّ ذی فَضْلٍ بِفَضْلِهِ وَ کُلَّ ذی جَهْلٍ بِجَهْلِهِ؛ جان لو کہ ہمارا مہدی( عج) جب آئے گا تو ہر صاحب فضیلت اور نیکی کرنے والے کو اس کا حق عطا کرے گا اور ہر جاہل اور نادان کو اس کی جگہ رکھے گا»۔*

♦️ پیغمبر اکرم(ص) کا یہ جملہ قرآن مجید کی ایک آیت کے جملے کی طرح ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «وَ یؤْتِ کلَّ ذِی فَضْلٍ فَضْلَه؛ ہر صاحب فضیلت اور نیکی کرنے والے کو اس کی نیکی کا بدلہ  دے گا»۔(سورہ ہود، آیت۳)۔ اس آیت میں ظاہری طور پر اللہ کی  طرف متوجہ رہنے والوں کو اچھی زندگی عطا کرنے اور ہر شخص کی فضیلت و نیکی کاعوض اوربدلہ عطاکرنے کا اعلان ہورہا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ "ویؤْتِ کلَّ ذِی فَضْلٍ فَضْلَهُ هُوَ عَلِی بْنُ أَبِیطَالِبٍ ع؛ یہ عوض اور بدلہ عطا کرنے والے امام علی علیہ السلام ہیں۔(المناقب ابن شهرآشوب، ج3، ص98 ؛  شواهد التنزیل حسکانی، ج1، ص355)۔ ظاہر ہے کہ امام علی)ع(سلسلہ امامت میں پہلے امام ہیں وہ فضل اور نیکی کا بدلہ عطا کرنے والے ہیں تو آیت کے آخری مصداق امام مہدی(عج)ہیں جن کے بارے میں بھی پیغمبراکرم(عج)نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو ان کےفضل و نیکی کا بدلہ عطاکریں گے۔اسی طرح جاہلوں کو ان کی حیثیت دکھائیں گے۔

♦️ قرآن مجید کی آیت اور امام زمانہ (عج) کے بارے میں حدیث اور اسی طرح دوسری حدیثوں میں روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ جب امام کا ظہور ہوگا تو ہر حقدار کو اس کا حق ملے گا۔ ہر فضیلت رکھنے اور اچھا کام کرنے والے کو اس کا انعام ملے گا۔ ہر دیندار کو اس کا اجر ملے گا، ہر محنت اور زحمت کش کرنے والے کو اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اسی طرح ہر عالم، فاضل، قابل، لائق، عامل کو اس کے علم، فضل، قابلیت، لیاقت اور عمل کے لحاظ سے مرتبہ عطا کیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں جاہل، کاہل، کام چور کو ناحق کسی کا حق نہیں لینے دیا جائے گا۔ جو لائق اور باصلاحیت نہیں ہوگا اس کو دوسروں کی جگہ اور دوسروں کے مقام تک بیٹھنے نہیں دیا جائے گا۔

♦️ کچھ حدیثوں کی روشنی میں امام زمانہ )عج( کی جو صفت بیان ہوئی ہے یہاں "فضل" سے مراد علم ہے اور صاحب فضل سے مراد "عالم" ہے جس کے مقابلے میں "جہل" آیا ہے۔ لہذا حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ ظہور امام زمانہ(عج)کے بعد جو شخص جتنا علم کا مالک ہوگا اس کو اتنا بلند مرتبہ دیا جائے گا اور اس کے مقابلے میں جو جتنا زیادہ جاہل ہوگا اس کو بلند مقامات سے دور رکھے گا۔ یعنی جو جتنا قیمتی شخص ہوگا اس کو اتنی ہی قیمت عطا کی جائے گی۔

♦️ لیکن یاد رہے کہ اسلام میں عالم اور جاہل ہونے کا معیارصرف کچھ کتابیں پڑھ لینا اور کچھ علوم سے جاہل ہونا نہیں ہے بلکہ دین الہی اور شریعت کے عقائد و احکام اور معارف کو جان کر، سمجھ کر ان پر عمل کرنے والا ہی "سچا عالم" ہے اور ان کو نہ جاننے یا جانتے ہوئے بھی عمل نہ کرنے والا ہی "حقیقی معنی میں جاہل "ہے۔