❇️ * امام زمانہ (عج) کی اعطایی معرفت *♦️ (دوسرا حصہ)

 

گذشتہ کلاس میں بیان کیا گیا تھا کہ  اماموں کی معرفت کا نور انسان کے دل میں اسی وقت آسکتا ہے جب وہ ایمان، عمل اور اماموں کی دوستی کے ذریعہ ان سے نزدیک ہو۔ آج اس سلسلے میں مزید کچھ اہم باتوں کا ذکر کیا جارہا ہے:

۱- امام زمانہ (عج)  کی معرفت خدا کا خاص فضل و کرم ہے ، جس کو یہ معرفت حاصل ہوتی ہے وہی حقیقت میں اللہ کی بندگی اور معصومین  علیہم السلام کی اطاعت و پیروی کی نعمت پاتا ہے۔ اور اسی کو بندگی و عبادات کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ورنہ تمام عبادتیں بیکار ہوجاتی ہیں؛ جیسا کہ امام محمد باقرعلیہ السلام کا قول ہے کہ:  "دین کا سب اعلیٰ مرتبہ اور اس کی کلید اور ہر چیز میں خدائے رحمن کی خوشنودی امام کی معرفت کے بعد اس کی اطاعت میں ہے، بیشک خداوندعالم فرماتا ہے(جوشخص پیغمبر کی پیروی کرتا ہے وہ حقیقت میں اللہ کے حکم کو مانتاہے اور جو پیغمبر سے منھ موڑلیتا ہے تو ہم نے آپ کو اس کے لئے نگہبان نہیں بنایا ہے) بیشک جو شخص راتوں میں عبادت کے لئے قیام کرے، دنوں میں روزہ دار رہے، اپنے تمام اموال کو راہ خدا میں صدقہ دے دےاور ساری عمر حج کرتا رہے لیکن ولی خدا کے امرولایت کی معرفت و شناخت نہ رکھے تاکہ اس کی پیروی کرسکے اور اپنے اعمال کو ان کی رہنمائی میں انجام دے تو ایسے شخص کے لئے کوئی ثواب نہیں ہوگا اور وہ اہل ایمان میں سے نہیں ہوگا "(الکافی، ج 2، ص 19، ح 5)

مذکورہ حدیث کی روشنی میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو معرفت امام معصوم سے محروم کردیتا ہے یا جو شخص بغیر امام معصوم کی معرفت و شناخت کے کوئی عمل انجام دیتا ہے تو وہ شخص کچھ بھی کرلے لیکن نہ صاحب ایمان ہوگا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی اجر و ثواب ہوگا اس لئے کہ وہ نور ولایت کی روشنی سے محروم ہوتا ہے۔

۲۔ معرفت رسول {ص} اور آپ کے بعد اماموں کی معرفت و شناخت اس لئے بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دین  کے برناموں اور عبادات کو انجام دینے کے لئے ایسے آزاد نہیں رکھا گیا ہے بلکہ ان تمام کاموں کے لئے اللہ کے نمائندوں کی نگرانی میں رہنا ضروری ہے۔اسی لئے  رسول اللہ [ص] کے بعد ہر زمانے میں معصوم امام کا وجود ہے اور حکم دیا  گیا ہے جو بھی انجام دینا اسے انہیں حضرات کی نگرانی اور رہنمائی میں انجام دینا ہے اور یہ کام معرفت کے بغیر نہیں ہوسکتاہے  ۔ جیسا کہ پیغمبراکرم[ص] نے فرمایا کہ:

«مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَحْیَا حَیَاتِی وَ یَمُوتَ مِیتَتِی وَ یَدْخُلَ جَنَّةَ عَدْنٍ اَلَّتِی وَعَدَنِی رَبِّی قَضِیبٌ مِنْ قُضْبَانِهِ غَرَسَهُ بِیَدِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ کُنْ فَکَانَ فَلْیَتَوَلَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ وَ اَلْأَوْصِیَاءَ مِنْ ذُرِّیَّتِی فَإِنَّهُمْ لَنْ یُدْخِلُوکُمْ فِی بَابِ ضَلاَلٍ وَ لَنْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لاَ تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ»

"جو شخص چاہتا ہے کہ مجھ جیسی زندگی گزارے اور میری طرح دنیا سے رخصت ہو اور ساکن خلد برین ہو جس کا پروردگار نے وعدہ کیا ہے تو اسے چاہئے کہ میرے بعد علی علیہ السلام اور میری ذریت میں سے اوصیاء کی اطاعت و پیروی کرے اس لئے کہ وہ ہرگز تمہیں ہدایت سے دور نہیں ہونے دیں گے اور کبھی بھی گمراہی میں جانے نہیں دیں گے۔ تم انہیں سکھانے اور تعلیم دینے کی کوشش نہ کرنا یہ تم سب سے اعلم اور آگاہ ہیں(کامل الزیارات  ج۱ ص۷۱-بحار الانوار  ج۴۴ ص۲۶۰- عوالم العلوم  ج۱۷ ص۱۳۸).

آئمہ علیہم السلام کی معرفت اور حقیقی شناخت اللہ تعالیٰ کی جانب سے مل سکتی ہے جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے اور اس کے لئے دعا و توسّل کا بھی حکم دیا گیا ہے، جن میں بعض باتوں کا گذشتہ کلاسوں میں ذکر کیا گیا ہے۔

۴- جب انسان امام(عج)  کی حقیقی معرفت حاصل کرتا ہے تو دین و ایمان اور شریعت کے تمام برناموں اور مسائل میں صرف امام کی رہنمائی اور ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلے گا اور خود اپنی عقل و رائ نہیں لگائے گا۔  دین کے تمام علماء، فقہا اور مجتہدین کا بھی یہی کہنا ہے، جو کچھ ان کے دروازے سے حاصل ہو اس پر عمل کرنا ہے۔ کوئی بھی دین کے سلسلے میں امام معصوم سے بڑا مرجع اور مرکز نہیں ہے۔

۵۔ امام زمانہ (عج) سے مربوط جو بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں  اور جن کے پڑھنے کی بار بار پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے،  ان تمام کے مضامین اور ان میں بیان ہوئے مطالب پر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے امام زمانہ (عج) کی حقیقی اور واقعی معرفت  طلب کرنا ہے اور صرف امام معصوم ہی کواپنی زندگی کے مسائل  سب کچھ جاننا اور ماننا ہے۔

ان شاء اللہ آئندہ کلاس میں امام زمانہ عج کی معرفت کے مختلف پہلووں کاذکر کیا جائے گا جن کا اشارہ کچھ کلاسوں سے پہلے ایک کلاس میں کیا گیا تھا۔