❇️ * امام زمانہ (عج) کی اعطایی معرفت *♦️ (پہلا حصہ)

گذشتہ کلاسوں میں اشارہ کیا گیا تھا کہ امام زمانہ عج کی معرفت دو طرح سے ممکن ہے؛ اکتسابی معرفت اور اعطایی معرفت۔ اکتسابی معرفت یعنی کتابوں کے مطالعے اور ان میں غور و فکر کرکے معرفت حاصل کی جاۓ۔ لیکن اعطایی معرفت وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عطا اور کرم سے حاصل ہوتی ہے۔ اور آج کی کلاس میں اسی سلسلے میں چند باتوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔

۱۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس بات کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ متعدد اسباب جیسے نیک اعمال، پرہیزگاری، پاکیزہ زندگی، دعا اور اللہ تعالیٰ سے گہرے رابطہ اور اسی طرح اللہ اور معصومین علیہم السلام کے خاص کرم اور عنایت کی وجہ سے دل میں معرفت کا نور روشن ہوجاتا ہے اور انسان بہت سے حقایق سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ، رسول اور اس کے معصوم اماموں کی معرفت کے حاصل ہونے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس قانون اور طریقے کا ذکر بھی کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:  «یا أیّها الّذین آمنوا إن تتّقوا الله یجعل لکم فرقاناً» اے اہل ایمان! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہوگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں حق و باطل میں فرق کرنے کی طاقت عنایت فرماۓگا(سوره انفال، آیت29)۔     اسی طرح دوسرے مقام پر آیا ہے کہ:" وَ اَلَّذِینَ جٰاهَدُوا فِینٰا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنٰا" ؛ اور جن لوگوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم اُن کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے (عنکبوت‏، 69)۔  ان آیات کی روشنی میں یقینی طور پر  عمل اور پرہیزگاری کی تاثیر کا ذکر ہوا ہے اور معرفت خدا، معرفت رسول اور معرفت امام  کا حاصل ہونا ہی بہترین ہدایت اور حق و باطل میں فرق ہے۔

۲۔ تاریخی لحاظ متعدد واقعات اور احادیث میں ذکر ہوا ہے کہ انسان جب تقوا اور پرہیزگاری اور نیک عمل اور دعا و توسل کی زندگی گزارتا ہے اور واقعا  اخلاص کے ساتھ ان چیزوں کو انجام دیتا ہے تو اسے ایمان و معرفت کا بہترین درجہ حاصل ہوتا ہے ۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "جو شخص جوبات جانتا ہے اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ان باتوں کا بھی علم عطا کردیتا ہے جو نہیں جانتا ہے"۔  معصومین علیہم السلام سے قریبی اور نزدیکی اصحاب کے حالات اور واقعات بھی اسی بات کو بیان کرتے ہیں ۔ ان کا عمل اور اخلاص ہی تھا جس کے نتیجہ میں ایمان و معرفت میں اضافہ ہوا اور وہ معصومین علیہم السلام سے نزدیک ہوۓ۔

۳۔  جو شخص امام زمانہ عج کی معرفت اور شناخت کی تلاش میں رہتا ہے اور اخلاص کے ساتھ عمل اور دعا کرتا ہے۔ امام زمانہ عج سے متعلق دعاؤں اور اذکار کو پڑھتا ہے۔ ایسے شخص کے دل میں معرفت امام کا نور روشن ہوجاتا ہے۔  اس سلسلے میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ ابوخالد نامی شخص نے امام باقر علیہ السلام سے  " فَآمِنُوا بِاللّهِ وَ رَسُولِهِ وَ اَلنُّورِ اَلَّذِی أَنْزَلْنا " یعنی اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پرایمان لاؤ جو ان کے ساتھ نازل ہوا(تغابن، آیه8)  اس آیت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:اے ابوخالد! خداکی قسم نور سے مراد ہم آل محمد (ص) میں سے اماموں کا نور ہے جو روز قیامت تک رہیں گے۔خدا کی قسم! یہ حضرات خدا کے نور سے خلق ہوۓ ہیں جو پیغمبر(ص) کے ساتھ نازل ہوۓ ہیں ۔ خدا کی قسم! یہ زمین و آسمان میں خدا کے نور ہیں۔ خدا کی قسم! اے خالد۔ مومنین کے دل میں امام کا نور سورج کے نور سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔ خدا کی قسم! آئمہ مومنین کے دلوں کو منور کرتے ہیں اور خدا جس سے چاہتا ہے ان کے نور کو پوشیدہ کردیتا ہے جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کا دل تاریک و سیاہ ہوجاتا ہے۔ خدا کی قسم! کویٔ بھی بندہ اس وقت تک ہمیں دوست نہیں رکھ سکتا ہے جب تک ہماری پیروی نہ کرے، جب پیروی کرے گا تو خداوندعالم اس کے دل کو پاکیزہ کردےگا۔ اور خداوندعالم بندے کے دل کو اس وقت پاکیزہ نہیں کرتا ہے جب تک وہ ہمارے بارے میں خالص نہ ہوجاۓ اور ہم سے سازگاری (ملاپ) نہ رکھے۔ اور جو بندہ ہم سے سازگاری رکھے گا خداوندعالم قیامت کے دن اس کا حساب آسان کردے گا اور وہ قیامت کے دن کے ڈر و خوف سے محفوظ رہے گا"۔

مذکورہ حدیث کی روشنی میں صاف طور پر اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ اماموں کی معرفت کا نور انسان کے دل میں اسی وقت آسکتا ہے جب وہ عمل کے ذریعہ اماموں سے نزدیک ہو اور ان کے فرامین پر عمل کرے اور ان کی دوستی کا دم بھرتا ہے۔ اس سلسلے مزید باتوں کا ذکر آئندہ کلاس میں کیا جائے گا۔