مذهب تشیع کی ترویج و تبلیغ کے لئے کلاسز اور تحقیقی نظریات و معارف کا مرکز

پسِ سقیفہ: حضرت زہرا (ع) کا سیاسی احتجاج اور دفاعِ ولایت کی حکمتِ عملی

پسِ سقیفہ: حضرت زہرا (ع) کا سیاسی احتجاج اور دفاعِ ولایت کی حکمتِ عملی

نازیہ علی نقوی-قم المقدسہ ایران

خلاصہ

یہ مقالہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے ان سیاسی مواقف اور جدوجہد کے اصول و قواعد کا جائزہ پیش کرتا ہے جو آپ (ع) نے ولایتِ امام علی (ع) کے دفاع میں اختیار فرمائے۔ اس تحقیق میں، ہم سب سے پہلے فدک، غنائمِ خیبر اور میراثِ رسول (ص) سے متعلقہ معاملات کا تجزیہ کریں گے۔ اس مقالے کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ سقیفہ کے خلاف صدیقہ کبریٰ (ع) کے تمام اعتراضات، خواہ ان کا ظاہری عنوان «الخطبة الفدکیة» (خطبہ فدکیہ) ہی کیوں نہ ہو، اپنی اساس میں مکمل طور پر سیاسی تھے اور ان کا واحد ہدف امیرالمومنین علی (ع) کی امامت و ولایت کا دفاع کرنا تھا۔ اس ضمن میں، آپ (ع) کی جدوجہد کے مختلف مراحل سے ٹھوس مثالیں پیش کی جائیں گی، جن میں مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار کے سامنے آپ (ع) کا تاریخی خطبہ؛ امام علی (ع) کے ہمراہ انصار کے گھروں پر جا کر اتمامِ حجت؛ حزن و ملال اور گریہ کی صورت میں خلیفہ اول کے خلاف آپ (ع) کا مسلسل احتجاج؛ اور بسترِ علالت پر مدینہ کی خواتین کے سامنے آپ (ع) کا اہم خطاب شامل ہیں۔ ان تمام مواقف کا تجزیہ کرتے ہوئے،  ہم نے سیرتِ فاطمی (ع) سے، جو آیہ تطہیر اور حدیثِ متواتر ثقلین کا ایک بارز مصداق ہیں، پانچ بنیادی سیاسی اصولوں کا استخراج کیا ہے: (1) دین و سیاست کا باہمی اٹوٹ رشتہ، (2) حق کی حاکمیت کے لیے غیر متزلزل عزم، (3) سیاسی اقدامات میں زمان و مکان کی عمیق پہچان، (4) قرآن و عترت کی لازمانی علیحدگی پر اصرار، اور (5) ظلم کے خلاف ثقافتِ شہادت کو فروغ دینا۔

کلیدی الفاظ:حضرت زہرا (ع)، دفاعِ ولایت، امام علی (ع)، سیاسی مواقف، خطبہ فدکیہ، سقیفہ

مقدمہ

صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی عظیم المرتبت شخصیت کے گرد لاتعداد تحریریں لکھی گئی ہیں۔ بعض کتاب ناموں میں آپ (ع) سے متعلق تقریباً دو ہزار مستقل تصانیف کا ذکر ملتا ہے  ۔

اس کے باوجود، صدیقہ کبریٰ (ع) کی آفاقی شخصیت کے پیشِ نظر، آپ (ع) کی زندگی کے مختلف پہلوؤں، خواہ وہ ثقافتی، سماجی، اقتصادی یا سیاسی ہوں، کا مکمل احاطہ ہم خاکیوں کی فکر سے ماوراء ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ (ع) کا وجودِ مقدس ثقلین کے بارز مصادیق میں سے ایک اور ثقلِ کبیر (قرآن) کا محور و مرکز ہے۔ انسانی عقل جس طرح قرآن کریم (ثقلِ کبیر) کے تمام مراتب کے ادراک سے قاصر ہے، اسی طرح ان ذواتِ مقدسہ (ثقلِ اصغر) کے وجودی مراتب کو سمجھنے سے بھی عاجز ہے۔

اب تک ثقلین کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ انسانی فہم کی حد تک ہی محدود ہے۔ ان تحریروں میں سے بہت کم تعداد نے آپ (ع) کی سیاسی زندگی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ بعض کتب نے آپ (ع) کے خطبات کے ترجمے اور شرح پر اکتفا کیا ہے  ، جبکہ دیگر نے آپ (ع) کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ضمن میں آپ (ع) کی سیاسی سیرت کا بھی ذکر کیا ہے  ۔ حالیہ دہائیوں میں کچھ ایسی تحریریں بھی سامنے آئی ہیں جنہوں نے اپنی زیادہ تر مباحث کو صدیقہ کبریٰ (ع) کی سیاسی زندگی کے لیے مختص کیا ہے  ۔

ان تمام کاوشوں کے باوجود، اس میدان میں اب بھی بہت سے خلاء اور گمشدہ حلقے  موجود ہیں جنہیں پُر کرنے کے لیے علمی تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر مصنفین نے سیاسی مسائل پر تحقیق کرنے کے بجائے، صدیقہ کبریٰ (ع) کے فضائل و مناقب بیان کرنے پر زیادہ زور دیا ہے۔

اس لحاظ سے، اس مقالے کی جدت اور انفرادیت  یہ ہے کہ یہ زیادہ تر محققین، بالخصوص اہل سنت کے نقطہ نظر کے برعکس— جنہوں نے اس بحث کو "الخطبۃ الفدکیہ" یعنی ایک مالی تنازعہ کا عنوان دیا ہے— یہ ثابت کرے گا کہ غدیرِ خم کے تاریخی واقعہ اور دیگر حساس تاریخی موڑ پر آپ (ع) کے تمام اعتراضات اور مواقف مکمل طور پر سیاسی تھے اور ان کا واحد مقصد اسلام کی قیادت و امامت، یعنی رسول خدا (ص) کے بلافصل جانشین امیرالمومنین علی(ع) کی ولایت کا دفاع کرنا تھا۔ فدک اور میراث جیسے مطالبات اس عظیم، الٰہی اور فیصلہ کن دفاع کے لیے ایک پیش خیمہ اور مقدمہ کی حیثیت رکھتے تھے۔

خلافت کا غصب اور بیتِ وحی پر یلغار

واقعہ سقیفہ کے فوراً بعد، قائم ہونے والی حکومت کے خلاف سب سے اہم اور بنیادی احتجاج وہ تھا جو اہل بیت (ع) کے حق کے لیے صدیقہ کبریٰ (ع) کی جانب سے دو بڑے اعتقادی اور سیاسی محاذوں پر سامنے آیا۔

خلیفہ اول کے کارندوں کے ذریعے صدیقہ طاہرہ (ع) کے گھر پر حملہ اور اسے نذرِ آتش کرنے کی کوشش، رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد پیش آنے والے دردناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ جب خلیفہ کو یہ اطلاع ملی کہ صحابہ کی ایک جماعت نے امیرالمومنین امام علی (ع) کے گھر میں پناہ لے رکھی ہے، تو اس نے عمر کی سربراہی میں ایک گروہ کو بیعت لینے کے لیے بھیجا اور حکم دیا کہ اگر وہ انکار کریں تو انہیں قتل کر دیا جائے اور گھر کو آگ لگا دی جائے  ۔

جب حضرت فاطمہ (ع) نے عمر کو آگ ہاتھ میں لیے دیکھا تو فرمایا: "کیا تم میرا گھر جلانے آئے ہو؟" اس نے کہا: "ہاں، مگر یہ کہ تم بھی وہی قبول کر لو جو امت نے (بیعت کی صورت میں) قبول کر لیا ہے"  ۔

صدیقہ کبریٰ (ع) دروازے کے پیچھے تشریف لائیں اور  یوں مخاطب ہوئیں:«لا‌ عهدَ‌ لی بقومٍ أسوءَ محضراً مِنکُم تَرَکتُم رَسوُلَ الله جَنازةً بینَ أیدِینا و قَطَعتُم أمرَکُم بَینَکُم لِتستأمرونا و لم تَرُدُّ لنا حقّاً»   (ترجمہ: "میں نے تم سے بدتر قوم نہیں دیکھی! تم نے رسول خدا (ص) کا جنازہ ہمارے ہاتھوں پر چھوڑ دیا اور ہم سے مشورے کے بغیر خلافت کو آپس میں تقسیم کر لیا، اور ہمارا حق ہمیں نہ لوٹایا؟!")

آپ (ع) نے مزید فرمایا: «کَاَنَّکُم لَم تَعلَموا ما قال یَومـَ غـدیر‌ خـَمٍّ، و الله لَقَد عَقَدَ لَهُ یَومَئذٍ الوِلاءَ لِیَقطَعَ مِنکُم بذلک منها الرجاء، و لکِنَّکُم قـَطَعتُمُ الأسـبابَ بَینَکم وَ بَینَ نَبِیِّکُم، والله حسیبٌ بیننا و بینکم فی الدّنیا وَ الاخرة»   (ترجمہ: "گویا تم غدیر کے دن ہونے والے اعلان اور رسول خدا (ص) کے فرمان سے بالکل بے خبر ہو۔ خدا کی قسم، اس دن (غدیر کو) امرِ ولایت کو اس قدر مضبوط اور مستحکم کر دیا گیا تھا کہ تمہارے لیے لالچ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی تھی، لیکن تم نے اس کا بھی پاس نہ رکھا اور اپنے اور اپنے نبی (ص) کے درمیان رشتوں کو کاٹ ڈالا۔ یقیناً خداوندِ عالم دنیا اور آخرت میں ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا")

بیتِ فاطمہ (ع) پر حملے کا یہ واقعہ اس قدر مشہور تھا کہ مصر کے شاعر محمد حافظ ابراہیم نے اسے خلیفہ دوم کے "افتخارات" میں شمار کرتے ہوئے کہا:

«وَ قَولَةٌ لِعَلیٍّ قالها عمرُ / اکرم مبایعها و اکرم بِمُلقیها»

«اَحرقتُ بابکَ لا أُبـقیِ عـلیک ‌‌بِها / إن لم تُبایع و بنت‌ المصطفی‌ فیها»

«من کان مثل ابی‌حَفضٍ یفوه بها / امام فارس عدنان و حـامیها»

(ترجمہ: "عمر نے علی (ع) سے جو بات کہی، اس پر کہنے والے اور سننے والے دونوں کو سلام! ۔۔۔ 'اگر تم بیعت نہیں کرو گے تو میں تمہارے گھر کو جلا دوں گا اور اس میں کسی کو باقی نہیں چھوڑوں گا، اگرچہ اس میں محمد مصطفی (ص) کی بیٹی ہی کیوں نہ موجود ہو'۔ عمر کے سوا کس میں ہمت تھی کہ وہ عدنان کے ہیرو اور محافظ (علی) کے سامنے یہ بات کہہ سکتا؟")  ۔

خلیفہ اول کا اپنی زندگی کے آخری لمحات میں یہ اقرار کرنا کہ: "کاش میں نے فاطمہ (ع) کے گھر کی حرمت کا پاس رکھا ہوتا اور اس پر حملے کا حکم نہ دیا ہوتا" ، اس حملے کے وقوع پذیر ہونے پر ایک قطعی دلیل ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے واضح طور پر گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے، بالخصوص نبی (ص) کے گھر میں داخل ہونے سے سختی سے منع فرمایا تھا  ۔

فدک: ایک مالی تنازعہ نہیں، ایک سیاسی محاذ

جیسا کہ مقدمے میں بیان ہوا، سقیفہ کے کارپردازوں کے خلاف صدیقہ طاہرہ (ع) کا موقف، جسے بعض اہل سنت محققین ایک اقتصادی اور مالی جھگڑے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، درحقیقت سو فیصد ایک سیاسی معاملہ تھا اور اس کا ہدف امیرالمومنین (ع) کی امامت و ولایت کا دفاع کرنا تھا۔

اگر صدیقہ اطہر (ع) کا قیام اور احتجاج صرف مالی مسائل اور "فدک کے غصب" پر ہوتا، تو آپ (ع) کے تمام دلائل صرف فدک اور وراثت کے گرد گھومتے۔ لیکن آپ (ع) کے خطبات، دلائل اور احتجاجات فدک کی حدود سے کہیں آگے نکل کر خلافت اور جانشینی رسول (ص) کے مرکزی نکتہ پر مرکوز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (ع) اپنے خطبوں میں امیرالمومنین (ع) کی قابلیتوں، شائستگی اور مسئلہ غدیر خم سے استناد فرماتی ہیں، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اصل مسئلہ ولایت تھا اور باقی مسائل اس کے سامنے ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔

فدک کا تاریخی پس منظر اور سیاسی اہمیت

فدک، جو مدینہ منورہ سے تقریباً 90 کلومیٹر شمال میں واقع تھا، خیبر کے یہودیوں کے زیرِ تسلط تھا۔ جب خیبر مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تو فدک کے باشندوں نے بغیر جنگ کے رسول خدا (ص) سے صلح کر لی  ۔

قرآنی قانون (سورہ حشر، آیت 6-7) کے مطابق، وہ سرزمینیں جو جنگ کے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آئیں (جنہیں "فَے" کہا جاتا ہے)، وہ رسول خدا (ص) کی ذاتی ملکیت شمار ہوتی ہیں۔ فدک بھی انہیں اموال میں سے تھا اور آنحضرت (ص) کی مِلکِ طلق (Private Property) تھا۔

فریقین کے مفسرین اور محدثین کی روایات کے مطابق، جب آیت «وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ» (سورہ اسراء: 26) نازل ہوئی، تو رسول خدا (ص) نے صدیقہ طاہرہ (ع) کو طلب فرمایا اور فدک انہیں عطا (ہبہ) کر دیا  ۔

لہٰذا، فدک پیغمبر اسلام (ص) کا ذاتی مال تھا جو آپ (ص) نے اپنی بیٹی کو بخش دیا تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تاریخی مطالعے کے مطابق، فدک کھجور کے وسیع باغات اور ابلتے چشموں پر مشتمل تھا اور اس کی سالانہ آمدنی بہت زیادہ تھی  ، جو بعض روایات کے مطابق 24 ہزار سے 70 ہزار دینار تک تھی  ۔

یہی وجہ تھی کہ جب حضرت زہرا (ع) کے احتجاج کے بعد خلیفہ اول نے اسے واپس کرنے کا ارادہ کیا تو عمر نے کہا: "اگر تم فدک واپس کر دو گے تو اسلامی لشکر کے اخراجات کہاں سے پورے کرو گے؟"  ۔ یہ آمدنی اتنی تھی کہ تنہا تمام بنی ہاشم کو سالوں تک سقیفہ کی حکومت سے معاشی طور پر بے نیاز کر سکتی تھی ۔

حکومت کا استدلال اور صدیقہ (ع) کا ردّ

سقیفہ کے کارپردازوں نے حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی املاک کو ضبط کرنے کے لیے ایک ایسی حدیث کا سہارا لیا جس کا راوی صرف خلیفہ اول خود تھا: «إنّا (الانبیاء) لا نُوَرِّث، ما تَرَکناهُ صَدَقَةً»   (ترجمہ: "ہم انبیاء وراثت نہیں چھوڑتے، جو چھوڑیں وہ صدقہ ہے")۔

یہ حدیث نہ صرف اہل بیت (ع) کے لیے اجنبی تھی، بلکہ قرآن کے صریح نصوص کے بھی خلاف تھی۔ حضرت زہرا (ع) نے اس جعلی روایت کو رد کرتے ہوئے قرآن سے دلیل دی جہاں فرمایا گیا: «وَ وَرِثَ سُلَیْمانُ داوُدَ» (اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے)  اور دیگر عمومی آیاتِ میراث جیسے «یوصیکُمُ اللهُ فی أولادِکُم للذّکَرِ مِثلُ حـَظّ الأنـثیین»  ۔

آپ (ع) نے اس تضاد پر خلیفہ اول کو مخاطب کرتے ہوئے بھرے مجمع میں فرمایا: «یابـن ابـی‌قحافة‌! أفـی کتاب الله أن تَرِث‌ أباکَ‌ و لا‌ اَرِثَ أبی؟ لَقد جِئتَ شـیئاً فـَرِیّا! أفَعَلی عَمدٍ تَرَکتُم کِتابَ اللهِ وَ نبَذتُمُوهُ وَراءَ ظهورِکُم؟»   (ترجمہ: "اے ابی قحافہ کے بیٹے! کیا یہ اللہ کی کتاب میں ہے کہ تم اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ تم نے کیسی جھوٹی اور بُری بات کہی ہے! کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اسے پسِ پشت ڈال دیا ہے؟")۔

تنازعہ صرف وراثت (ارث) کا نہیں تھا، بلکہ ملکیت (نحلہ/ہبہ) کا بھی تھا۔ جب آپ (ع) نے فدک کو بطور "ہبہ"  طلب کیا تو خلیفہ نے آپ (ع) سے گواہ طلب کیے۔ حالانکہ آپ (ع) خود آیتِ تطہیر «إنّما یریدُ الله‌ لِیذهـبَ‌ عـَنکم الرِّجسَ أهلَ البیتِ و یطهّرَکُم تَطهیراً»   کی روشنی میں معصومہ تھیں، پھر بھی آپ (ع) نے امام علی (ع) اور ام ایمن کو بطور گواہ پیش کیا، لیکن خلیفہ نے ان کی گواہی کو بھی رد کر دیا  ۔

کیا فدک کا مسئلہ سیاسی نہیں تھا؟

ان دلائل اور حکومت کے متضاد طرزِ عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیتِ عصمت و طہارت (ع) کی املاک کو ضبط کرنا ایک مکمل سیاسی اقدام تھا۔ حکومت کا مقصد اس اقدام کے ذریعے اہل بیت (ع) کو دنیوی  مال و اسباب سے تہی دست کرنا تھا، تاکہ لوگ خاندانِ عصمت و طہارت (ع) کے گرد سے منتشر ہو جائیں اور سقیفہ کے اہلکاروں کی طرف مائل ہوں  ۔

بنا بریں، فدک کا مسئلہ محض ایک مالی اختلاف نہیں، بلکہ ایک بہت بڑا سیاسی معاملہ تھا، جس کے پسِ پردہ امیرالمومنین (ع) کی ولایت، رسول خدا (ص) کی جانشینی اور غدیرِ خم کا عظیم واقعہ موجود تھا۔ سقیفہ کے کارپرداز، خلافت کے معاملے میں علی (ع) کی حقانیت اور اسی طرح فدک کے معاملے میں صدیقہ طاہرہ (ع) کی صداقت کو جاننے کے باوجود، آپ (ع) کے جائز مطالبات کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔

یہ انکار اس لیے تھا کہ اگر اس دن خلیفہ، حضرت زہرا (ع) کی بات مان لیتا، تو اسے اگلے دن خلافت، امامت اور رسول خدا (ص) کی سیاسی جانشینی کے معاملے میں بھی آپ (ع) کے دلائل کو تسلیم کرنا پڑتا اور اسے علی (ع) کو واپس کرنا پڑتا۔ ابن ابی الحدید اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں: "اگر وہ اس دن فدک واپس کر دیتا، تو اسے کل خلافت بھی واپس کرنی پڑتی"  ۔ اسی لیے انہوں نے پہلے دن سے ہی قرآن اور عترت (ثقلین) کے مدِ مقابل کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

سیاسی جدوجہد کے چار مراحل

حضرت فاطمہ زہرا (ع)، جو خود ائمہ معصومین (ع) کے لیے حجتِ عملی تھیں، کی جدوجہد کے کئی پہلو ہیں۔ آپ (ع) نے ولایت کے دفاع کے لیے ایک کثیر الجہتی حکمتِ عملی اپنائی، جس کے چار نمایاں مراحل درج ذیل ہیں:

1۔ مسجد نبوی میں عظیم خطبہ (خطبہ فدکیہ)

صدیقہ کبریٰ (ع) کا سب سے اہم، واضح اور پرجوش موقف سقیفہ کے کارپردازوں اور خلیفہ کے خلاف مسجد رسول (ص) میں دیا جانے والا وہ خطبہ تھا جو ولایت اور امیرالمومنین علی (ع) کی انتصابی و انتخابی جانشینی کے دفاع میں تھا۔ یہ خطبہ، جو "خطبہ فدکیہ" کے نام سے مشہور ہوا، قرآنی معارف، سنتِ نبوی اور بے مثال فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے۔

الف۔ احکام کا فلسفہ اور حاکم کی اہلیت:

آپ (ع) نے اپنے خطبے میں ایمان، نماز اور زکوٰۃ کا فلسفہ بیان فرمایا۔ درحقیقت، آپ (ع) یہ واضح کرنا چاہتی تھیں کہ حکومت کی تشکیل کے لیے ایسے حاکم کی ضرورت ہے جو اسلام کی گہری معرفت رکھتا ہو، ورنہ معاشرہ انحراف کا شکار ہو جائے گا، جیسا کہ قرآن نے خود سوال اٹھایا: «أفمن یهدی الی الحقّ‌ أحقّ أن یتَّبَعَ أمـَّن لا یهـِدّی إلاّ أن یهدی» (کیا وہ جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے، پیروی کا زیادہ حقدار ہے، یا وہ جو خود ہدایت نہیں پا سکتا جب تک اسے ہدایت نہ دی جائے؟)  ۔

ب۔ امامت کا فلسفہ (امن کا محور):

آپ (ع) نے ارکانِ اسلام کے ساتھ امامت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: «فَجَعَلَ‌ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم‌ مِنَ‌ الشِرکِ۔۔۔ و طاعَتَنا نظاماً لِلمِلَّة و إمامَتَنا أماناً من الفُرقَةِ»   (ترجمہ: "خداوند نے ایمان کو تمہارے لیے شرک سے پاکیزگی کا ذریعہ بنایا۔۔۔ اور ہماری اطاعت کو ملتِ اسلام کے نظم کا باعث اور ہماری امامت کو تفرقے اور اختلاف سے امان کا ذریعہ قرار دیا ہے")۔

آپ (ع) نے واضح کیا کہ امامت، نبوت کی طرح، خدا اور رسول (ص) کی جانب سے ایک انتصاب (Appointment) ہے، نہ کہ عوام کا انتخاب (Selection)۔

ج۔ منطقِ سقیفہ کا ردّ:

سقیفہ میں، مہاجرین اور انصار دونوں اپنی اپنی "سبقت" اور "خدمات" کی بنیاد پر خلافت پر اپنا حق جتا رہے تھے۔ حضرت فاطمہ (ع) نے اس منطق کو رد کرتے ہوئے امیرالمومنین علی (ع) کی منفرد اور بے مثال سبقت، جانبازی اور قربانیوں کو بطور حجت پیش کیا۔ آپ (ع) نے فرمایا کہ جب علی (ع) دین کی سربلندی کے لیے جہاد کر رہے تھے، اس وقت باقی لوگوں کا کردار کیا تھا:

«مَکدُوداً‌ فِی‌ ذاتِ الله، مجتهداً فی أمر ِاللهِ، قَریباً مـِن رسـولِ اللهـِ۔۔۔ لا‌ تَأخُذُهُ‌ فی‌ الله لَومَة لائمٍ»   (ترجمہ: "وہ (علی) اللہ کی ذات کے لیے مشقت اٹھانے والے، اللہ کے امر میں کوشش کرنے والے، رسول اللہ (ص) کے قریب ترین۔۔۔ اور اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے والے تھے")۔

جبکہ آپ (ع) نے دوسروں کے کردار کو یوں بیان کیا: «وَ أَنتُم فـی‌ رِفـاهیّةٍ مـِن العَیشِ و ادِعونَ فاکِهونَ آمِنون، تَتَرَبَّصونَ بِنا الدَّوائِرَ وَ تَتَوَکَّفُونَ الأخبارَ وَ تَنکِصُونَ عِندَ النزال وَ تَفِرّونَ مِنَ‌ القـِتالِ‌»   (ترجمہ: "جبکہ تم (اس وقت) عیش و عشرت، خوشگذرانی اور امن و امان کی زندگی گزار رہے ہوتے تھے، ہمارے لیے برے واقعات کا انتظار کرتے۔۔۔ اور جنگ کے وقت فرار اختیار کر جاتے تھے")۔

د۔ سقیفہ کی حقیقت (نفاق اور فتنہ):

آپ (ع) نے سقیفہ کے واقعے کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے "نفاق" قرار دیا جو رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد ظاہر ہوا  ۔ آپ (ع) نے اسے "شیطان کی پکار پر لبیک"   کے مترادف قرار دیا۔ جب سقیفہ والوں نے یہ عذر پیش کیا کہ انہوں نے "فتنے کے خوف" سے یہ قدم اٹھایا، تو آپ (ع) نے فرمایا: «إبتداراً زَعَمتُم خَوفَ الفِتنَةِ، ألا‌ فی الفِتنَةِ سَقَطوا»   (ترجمہ: "تم نے فتنے کے خوف کا بہانہ بنا کر جلدبازی کی، آگاہ رہو کہ تم (فتنے سے بھاگے نہیں بلکہ) خود فتنے کے اندر جا گرے ہو!")

ھ۔ ایک عجلت پسندانہ اقدام:

آپ (ع) نے اس عمل کو ایک عجلت پسندانہ اقدام قرار دیا اور فرمایا: «هذا والعَهدُ قَریبٌ وَ الکَلْمـُ رَحـیبٌ وَ الجَرحُ لَمّا یُقبَرُ» (یہ سب اس حال میں ہوا کہ زمانہ (وفاتِ رسول سے) قریب تھا، زخم گہرا تھا، اور لاش ابھی دفن بھی نہ ہوئی تھی)  ۔

2۔ انصار کے دروازوں پر دستک (عوامی حمایت کی کوشش)

جدوجہد کا دوسرا مرحلہ، سقیفہ کے خلاف عوامی حمایت کو متحرک کرنا تھا۔ حضرت (ع)، امیرالمومنین (ع) کے ہمراہ، اس حالت میں کہ آپ (ع) حملہ آوروں کے ہاتھوں زخمی ہو چکی تھیں، راتوں کو انصار کے گھروں کا دروازہ کھٹکھٹاتیں اور ان سے پامال شدہ حقوق (یعنی خلافتِ علی (ع)) کی بحالی کے لیے مدد طلب کرتیں  ۔

انصار آپ (ع) کے جواب میں کہتے: "اگر علی (ع) اس شخص (خلیفہ اول) سے پہلے ہمارے پاس آتے تو ہم کسی اور کو منتخب نہ کرتے۔"

اس پر حضرت امیر (ع) جواب دیتے: "کیا میں رسول اللہ (ص) کا جنازہ گھر میں زمین پر چھوڑ دیتا اور انہیں دفن نہ کرتا اور حکومت کے لیے جھگڑا کرنے نکل پڑتا؟!"

اور زہرائے اطہر (ع) تائید فرماتیں: "ابوالحسن (ع) نے وہی کیا جو ان کے شایانِ شان تھا، اور انہوں نے (سقیفہ والوں نے) وہ کیا جس کا حساب اللہ ان سے لے گا"  ۔

آپ (ع) نے انصار کو ان کی اس عہد شکنی پر ملامت کی جو انہوں نے بیعتِ عقبہ میں رسول خدا (ص) سے کیا تھا کہ وہ آنحضرت (ص) اور ان کے اہل بیت (ع) کا دفاع ویسے ہی کریں گے جیسے وہ اپنے اہل و عیال کا کرتے ہیں۔ آپ (ع) نے مسجد میں انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: «یا مَعشَرَ ألنَّقیبَةِ! و أَعضاءَ المِلَة و حضَنَةَ الاِسلامِ، مـا هـذِهِ الغـَمیزةُ فِی حَقّی و السِّنَةُ فی ضَلامَتی؟۔۔۔ ءَأُهضَمُ تُراثَ ابی‌؟ و أنتم بِمرائیً وَ مَسمَع»   (ترجمہ: "اے جوانمردو! اے ملت کے بازوؤ اور اسلام کے محافظو! میرے حق کے معاملے میں یہ سستی اور غفلت کیسی ہے؟ اور میری مظلومیت پر یہ اونگھ کیوں؟۔۔۔ کیا میرے باپ کی میراث تمہاری آنکھوں کے سامنے لوٹی جا رہی ہے، جبکہ تم دیکھ اور سن رہے ہو؟")

3۔ گریہ و حزن کا سیاسی احتجاج

جدوجہد کا تیسرا مرحلہ وہ تھا جب آپ (ع) نے اپنے غم اور آنسوؤں کو ایک سیاسی ہتھیار میں تبدیل کر دیا۔ آپ (ع) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں کہ رسول خدا (ص) اور علی مرتضیٰ (ع) کی تمام محنتیں، بعض لوگوں کی بے اعتنائی، بے تقوائی، نفاق اور حرص کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہیں۔ جب ظاہری حمایت کے تمام راستے مسدود نظر آئے، تو آپ (ع) نے اپنے "گریہ" کے ذریعے اپنا احتجاج مسلمانوں اور آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔

آپ (ع) اس قدر گریہ فرماتیں کہ آپ (ع) کا شمار دنیا کے "بکّائین" (بہت رونے والوں) میں ہونے لگا۔ یہ احتجاج اتنا کارگر ثابت ہوا کہ سقیفہ کی حکومت کے لیے یہ ایک مسئلہ بن گیا۔ لوگوں نے آ کر شکایت کی کہ آپ (ع) کا گریہ انہیں بے چین کرتا ہے۔ انہوں نے آپ (ع) کے رونے پر پابندی لگانے یا اس کے لیے اوقات مقرر کرنے کی تجویز دی  ۔ اس کے بعد آپ (ع) مدینہ سے باہر احد میں حضرت حمزہ سید الشہداء (ع) کی قبر پر جا کر گریہ فرماتیں، جو بعد میں "بیت الاحزان" (غم کا گھر) کی تعمیر کا سبب بنا۔ یہ گریہ محض ذاتی غم نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی اعلان تھا کہ مدینہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

4۔ مدینہ کی خواتین سے آخری خطاب

جدوجہد کا چوتھا مرحلہ آپ (ع) کی علالت کے دوران پیش آیا۔ جب مدینہ کی خواتین آپ (ع) کی عیادت کے لیے حاضر ہوئیں، تو آپ (ع) نے اس موقع کو بھی غنیمت جانا اور ولایت کے دفاع میں ایک انتہائی بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔

آپ (ع) نے ان کے مردوں سے اپنی شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا اور فرمایا: «أصبحتُ و اللهِ عائِفَةً لِدنیا کُنَّ، قالِیَةً لِرِجالِکُنَّ لَفَظتُهُم بَعدَ أن عَجَمتُهُم وَ شَنَأتُهُم بَعدَ أن سَبَرتُهُم فـَقُبحاً لِفـُلول الحَدِّ وَ الّلعبِ بَعدَ الجدِّ»   (ترجمہ: "خدا کی قسم، میں تمہاری دنیا سے بیزار ہوں اور تمہارے مردوں سے سخت ناراض ہوں! میں نے انہیں آزمانے کے بعد دور پھینک دیا اور انہیں جانچنے کے بعد ان سے شدید نفرت کرتی ہوں۔ چُھری کی دھار کُند ہونے پر اور سنجیدگی کے بعد کھیل کود میں پڑ جانے پر لعنت ہو!")

آپ (ع) نے امامت کے اس انحراف کا ذمہ دار خود عوام اور صحابہ کی کوتاہی کو قرار دیا۔ اس خطبے میں آپ (ع) نے اس انحراف کے اسباب کا گہرا تجزیہ پیش کیا کہ لوگوں نے علی (ع) کو کیوں مسترد کیا: «وَ ما الّذِی نَقَمُوا مِن ابی‌الحَسَنِ؟ نَقَموا وَ اللهِ نکیر سَیفِهِ وَ قِلَّة مُبالاتِهِ لِحَتفِهِ وَ شِدَّةِ وَطأتِهِ و نـکالِ وَقـعَتِهِ وَ تَنَمُّرِهِ فـی ذاتِ اللهِ»   (ترجمہ: "ان لوگوں نے ابوالحسن (علی) میں کون سا عیب پایا تھا؟ خدا کی قسم، وہ ان کی تلوار کی تیزی، موت کے سامنے ان کی بے خوفی، ان کی سخت گیری، ان کی کاری ضرب اور خدا کی ذات میں ان کی شدت سے ناراض تھے")۔

اسی خطبے میں آپ (ع) نے مستقبل کے بارے میں اپنی مشہور پیشین گوئی فرمائی: «أما لَعَمری لَقَد لِقحَت فَنَظَرةً رَیثَما تُنْتِجُ، ثم اجتَلِبوا ملءَ القـَعْبِ دماً عَبیطاً وَ ذُغافاً مبیداً۔ هنالک یَخسرُ المبطلون۔۔۔ وَ ابشروُا‌ بسیف‌ صارمٍ‌ و سِطوَةٍ مُعتَدٍ غاشمٍ وَ بَهرَجٍ‌ شاملٍ‌ وَ‌ استبدادٍ مِن الظالمین»   (ترجمہ: "آگاہ رہو! میری جان کی قسم، خلافت کی یہ اونٹنی (جو تم لے گئے ہو) حاملہ ہے۔۔۔ انتظار کرو، عنقریب یہ بچہ جنے گی۔ تم اس کے تھنوں سے دودھ کے بجائے تازہ خون اور مہلک زہر دُوہو گے۔۔۔ اس وقت اہلِ باطل خسارے میں رہیں گے۔۔۔ ایک کاٹ دار تلوار، ایک ظالمانہ تسلط، ایک ہمہ گیر فتنے اور ظالموں کے ظلم کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔")

مورخین کے مطابق، یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی؛ مالک بن نویرہ کا قتل، احادیث گھڑنا، منبروں سے علی (ع) پر رسمی طور پر لعنت، حجاج کے مظالم، یزید کے دور میں واقعہ حرہ، امام حسین (ع) کا قتل، اور ابوذر  جیسے جلیل القدر صحابی کی جلاوطنی، یہ سب اسی انحراف کا نتیجہ تھا جس کی جڑیں ولایت کو اس کے اصل مرکز سے ہٹانے میں پیوست تھیں۔

فاطمی سیاسی مکتب کے بنیادی اصول

صدیقہ طاہرہ (ع) کی اس مختصر مگر پر برکت زندگی اور جدوجہد کا تجزیہ کرنے سے، آپ (ع) کے سیاسی مکتبِ فکر کے چند بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:

1۔ دین و سیاست کی یگانگت

پہلا اصول جو آپ (ع) کی سیرت سے ملتا ہے وہ دین اور سیاست کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ آپ (ع) کی تمام جدوجہد اسی اصول پر مبنی تھی کہ حکومت کا قیام، عدل کا نفاذ، حدود کا اجراء، اور وسائل کی عادلانہ تقسیم، یہ سب دین کا حصہ ہیں اور دین سے جدا نہیں ہیں۔

2۔ حق پر قاطعیت اور عدم مصالحت

دوسرا اصول، حق کی حاکمیت کے راستے میں غیر متزلزل عزم اور ظالموں کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کرنا ہے۔ آپ (ع) نے سقیفہ کے کارپردازوں کے ساتھ مصالحت کرنے سے قطعی انکار کر دیا۔ آپ (ع) نے شہادت تک امامِ معصوم (ع) کی ولایت کا بھرپور دفاع کیا اور آخری لمحے تک غاصبوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ آپ (ع) نے اپنی شہادت کے بعد بھی اس جدوجہد کو جاری رکھا؛ آپ (ع) کا رات کی تاریکی میں دفن ہونا، آپ (ع) کی قبر کا آج تک مخفی رہنا، اور آپ (ع) کا ان لوگوں پر اپنی آخری سانسوں تک ناراض رہنا، قیامت تک کے لیے ظلم کے خلاف ایک دائمی احتجاج ہے۔

3۔ زمان شناسی اور موقعیت شناسی

آپ (ع) کی سیاسی حکمتِ عملی کا ایک اہم اصول آپ (ع) کی زمان شناسی (Timing) اور موقعیت شناسی (Strategy) تھی۔ آپ (ع) نے احتجاج کے لیے مسجد کا انتخاب کیا؛ خطبے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا جب مہاجرین و انصار کی بڑی تعداد موجود تھی؛ اپنے خطبے میں رسول خدا (ص) کی وفات کے تازہ غم کو ابھارنے کے لیے «انا فاطمۃ بنت محمد» (میں محمد (ص) کی بیٹی فاطمہ ہوں) جیسے جذباتی اور منطقی جملوں کا استعمال کیا؛ اور اپنے دفن کے عمل کو اس طرح ترتیب دیا کہ قیامت تک ظالموں کا ظلم آشکار رہے۔

4۔ قرآن و عترت کی ناقابل علیٰحدگی

آپ (ع) کی پوری جدوجہد حدیثِ متواتر "ثقلین" کی عملی تفسیر تھی۔ آپ (ع) نے غاصبوں کے سامنے یہ کہہ کر ان کی علمی قابلیت کو چیلنج کیا:

«أم أَنتُم اعلم بِخُصوصِ القرآنِ وَ عُمومِه مِن ابـی‌وَ‌ ابـنِ عَمّی»   (ترجمہ: "کیا تم قرآن کے عموم و خصوص کو میرے والد (رسول خدا) اور میرے چچا زاد (علی) سے زیادہ جانتے ہو؟")

آپ (ع) نے ثابت کیا کہ امامت ایک الٰہی منصب ہے اور قرآن کی تفسیر و نفاذ، عترت کے بغیر ناممکن ہے۔ امامت، جیسا کہ امام رضا (ع) سے منقول ایک جامع حدیث میں ہے، محض عوامی انتخاب نہیں بلکہ: «إن الإمامة هی منزلة الأنبیاءِ وَ إرثُ الأوصیاءِ، إنّ الإمامة خلافةُ اللهِ‌ و خلافة‌ الرّسولِ۔۔۔ إنّ الإمامَةُ زَمامُ الدینِ و نِظامُ‌ المسلمینَ‌ و صلاح الدنیا وَ عزُّ المـؤمنین۔۔۔» (بلاشبہ امامت انبیاء کا مقام اور اوصیاء کی میراث ہے، امامت اللہ اور رسول (ص) کی خلافت ہے۔۔۔ امامت دین کی باگ ڈور، مسلمانوں کا نظام، دنیا کی اصلاح اور مومنین کی عزت ہے۔۔۔)  ۔

5۔ ظلم کے خلاف ثقافتِ شہادت

صدیقہ طاہرہ (ع) نے اپنے قول و عمل سے ظلم کے خلاف جہاد کرنے اور شہادت کو گلے لگانے کی ثقافت کو رائج کیا۔ آپ (ع) نے خود کو اور اپنے فرزند (محسن (ع)) کو قربان کر کے، شہادت کو ایک عمومی ثقافت میں بدل دیا، جو آج تک تاریخِ تشیع میں جاری و ساری ہے۔

نتیجہ 

گزشتہ تمام مباحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ صدیقہ طاہرہ (ع) نے رسول خدا (ص) کی شہادت اور سقیفہ کے واقعے کے بعد، امام علی (ع) کی امامت و رہبری کا اپنے پورے وجود کے ساتھ دفاع فرمایا اور اسی راہ میں آپ (ع) اور آپ (ع) کے فرزند محسن (ع) شہید ہوئے۔ آپ (ع) نے اپنے اعتراضات کو چار مراحل میں منظم کیا: (الف) مسجد نبوی میں خطبہ اور سقیفہ پر اتمامِ حجت، (ب) مدینہ کی خواتین کے سامنے خطاب، (ج) مسلسل گریہ، (د) انصار کے گھروں پر جا کر مدد طلب کرنا۔ حضرت زہرا (ع) نے ان اقدامات کے ذریعے سقیفہ اور اس کے بانیوں کی اصل حقیقت کو آشکار کر دیا تاکہ آنے والی نسلیں حق کو پہچان سکیں۔ آپ (ع) نے اسلامِ نابِ محمدی (ص) کے حقائق کو بیان کیا اور امیرالمومنین (ع) کی بے مثال اور آسمانی شخصیت کو متعارف کروا کر ان کی امامت و رہبری کو ثابت کیا اور مخالفین کو رسوا کر دیا۔

یہ مقالہ اس نظریے کو ثابت کرتا ہے کہ آپ (ع) کی جدوجہد، بعض مصنفین کے نظریے کے برعکس، محض مالی نہیں تھی، بلکہ اس جدوجہد کا بنیادی ہدف، خدا اور رسول (ص) کے منتخب کردہ معصوم امام (ع) کی سیاسی قیادت اور امامت کا دفاع کرنا تھا۔ آپ (ع) نے سقیفہ کے واقعات کا تجزیہ کر کے، اقتدار پرست اور دنیا طلب عناصر کے چہروں سے پردہ اٹھایا۔ فاطمہ زہرا (ع) نے اہل بیتِ عصمت و طہارت (ع) کے بلند مقام کو بیان کر کے "شیعی مکتبِ فکر" (Doctrine of Shia) کی فکری بنیادیں رکھیں اور حدیثِ ثقلین کی روشنی میں قرآن و عترت کے ساتھ رہنے کی دائمی ضرورت اور فلسفے کو بیان فرمایا۔

آخر میں، زہرائے اطہر (ع) کی عصمت، جو آیہ تطہیر (احزاب: 33) اور حدیثِ ثقلین (جس کے مطابق آپ (ع) قرآن سے جدا نہیں ہو سکتیں) سے ثابت ہے، آپ (ع) کی اس تمام سیاسی جدوجہد کو "حجیت" (Authoritative Proof) عطا کرتی ہے، اور ولایتِ اہل بیت (ع) کو قبول کرنے کے لیے تمام مسلمانوں پر حجت تمام کر دیتی ہے۔

________________________________________

فہرستِ منابع 

1. قرآن مجید۔

2. نہج البلاغہ۔

3. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1385ق۔

4. ابن ابی طیفور، احمد، بلاغات النساء، قم، بی تا۔

5. ابن اثیر، عزالدین علی، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، 1423ق۔

6. ابن اثیر، عزالدین علی، الکامل فی التاریخ، بیروت، 1408ق۔

7. ابن اثیر، مبارک، النہایۃ فی غریب الحدیث، قاہرہ، 1385ق۔

8. ابن حنبل، احمد، المسند، بیروت، دار صادر، بی تا۔

9. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول من آل الرسول (ص)، قم، النشر الاسلامی، 1404ق۔

10. ابن شہر آشوب، محمد بن علی السروی، المناقب، قم، انتشارات علامہ، بی تا۔

11. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، بیروت، دارالکتاب، 1403ق۔

12. ابن قتیبہ، دینوری، مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، مصر، بی تا، قم، منشورات شریف الرضی، 1370ق۔

13. ابن واضح یعقوبی، تاریخ یعقوبی، نجف مکتبۃ المرتضویۃ، 1358ق۔

14. ابونعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، حلیۃ الاولیاء و طبعات الاصفیاء، بیروت، دارالفکر، 1416ق۔

15. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، بیروت، دارالکتاب الاسلامی، 1401ق۔

16. امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، مرکز الغدیر، 1416ق۔

17. انصاری، المولی محمد بن علی احمد القراچہ داغی التبریزی، اللمعۃ البیضاء فی شرح خطبۃ الزہرا (ع)، تحقیق سید ہاشم میلانی، قم، نشر الہادی، 1418ق۔

18. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1422ق۔

19. تستری، قاضی سید نوراللہ، احقاق الحق و اذہاق الباطل، تحقیق: قم، آیت اللہ مرعشی نجفی، بی تا۔

20. جوہری، خلیفہ اول، السقیفہ و فدک، تحقیق: محمد ہادی الامینی، بیروت شرکۃ الکتبی، 1413ق۔

21. حاکم حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل، لقواعد التفضیل، تہران، 1411ق۔

22. حافظ محمد ابراہیم، دیوان شاعر نیل، مصر، بی تا۔

23. حلبی شافعی، علی بن برہان الدین، السیرۃ الحلبیۃ، مصر، مصطفی البابی، 1349۔

24. حلی، حسن، نہج الحق و کشف الصدق، قم، دارال ہجرۃ، 1407ق۔

25. حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی تا۔

26. خوارزمی، موفق، المناقب، قم، جامعہ مدرسین، 1411ق۔

27. راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، قم، انتشارات مصطفوی، بی تا۔

28. رحمانی، احمد، فاطمۃ بہجۃ قلب المصطفی، تہران، المنیر للطباعۃ و النشر، 1420ق۔

29. سبط ابن جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن، تذکرۃ الخواص، نجف، 1369ق۔

30. سمہودی، علی بن احمد، وفاء الوفاء، بیروت، دارالاحیاء للتراث العربی، 1401ق۔

31. سیوطی، عبدالرحمن، الدر المنثور فی التفسیر المأثور، بی جا، بی تا۔

32. شامی یوسف، الدر النظیم، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1420ق۔

33. شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، مصر، 1317ق۔

34. صدر، سید محمدباقر، فدک فی التاریخ، تحقیق: عبدالجبّار شرارہ، قم، مرکز الغدیر، بی تا۔

35. صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، الخصال، قم، 1362۔

36. صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، عیون الاخبار، ترجمہ: علی اکبر غفاری، تہران، 1380۔

37. صدوق، محمد بن علی بن حسن قمی، معانی الاخبار، تہران، مکتبۃ الصدوق، 1379۔

38. طبرسی، احمد، الاحتجاج، ترجمہ و متن احتجاج: بہزاد جعفری، تہران، 1381۔

39. طبرسی، امین الاسلام، اعلام الوری باعلام الہدی، تہران، بی تا۔

40. طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، روایع التراث العربی، بی تا۔

41. طبری، محمد بن جریر ابن رستم، دلائل الامامۃ، قم، منشورات الرضی، 1363۔

42. طوسی، محمد بن الحسن، الامالی، قم، دارالثقافۃ، 1414ق۔

43. طوسی، محمد بن الحسن، تلخیص الشافی، قم، دارالکتب، 1396ق۔

44. عاملی، سید جعفر مرتضی، رنجہای حضرت فاطمۃ زہراء، ترجمہ محمد سپہری، قم 1381۔

45. فیروزآبادی، سید مرتضی، فضائل الخمسۃ من الصحاح الستۃ، قم، انتشارات جامعہ مدرسین 1422ق۔

46. قزوینی، محمد کاظم، فاطمۃ الزہراء من المہد الی اللحد، قم، بصیرتی، 1414ق۔

47. قمی، عباس، سفینۃ البحار، قم، دارالاسوۃ، 1414ق۔

48. قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ، قم، دارالاسوۃ، 1406ق۔

49. کلینی، محمد بن یعقوب، الاصول من الکافی، ترجمہ و شرح: محمد باقر کمرہ ای، تہران، اسوہ، 1379ق۔

50. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دارالتعارف، 1421ق۔

51. محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ، تہران، دارالکتب۔

52. مرعشی نجفی، ملحقات احقاق الحق، قم، مکتبۃ النجفی، 1418ق۔

53. مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، بیروت، 1422ق۔

54. مظفر، محمدحسین، عقاید الامامیۃ، قم، موسسۃ الامام علی (ع)، 1417ق۔

55. مظفر، محمد حسین، دلائل الصدق، قم، بصیرتی، 1395ق۔

56. منتظری، حسین علی، شرح خطبہ ہای فاطمۃ زہرا (ع)، قم، 1374۔

57. موسوی سید مرتضی علم الہدی، الشافی فی الامامۃ، تہران، 1410ق۔

58. موسوی، سید شرف الدین، المراجعات، تہران، اسوہ، 1422ق۔

59. ہلالی، سلیم بن قیس، اسرار آل محمد (ص)، ترجمہ اسماعیل انصاری، قم، 1381۔

60. کاشف الغطاء، محمدحسین، اصل الشیعۃ و اصولہا، بیروت، مؤسسہ اعلمی، 1399ق۔



۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت قرآن کی روشنی میں

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت قرآن کی روشنی میں

تحریر: صائمہ زیدی

​حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت اور فضائل کو قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ مفسرین اور محدثین نے ان آیات کی شانِ نزول میں آپ کی عظمت، پاکیزگی اور ایثار کو واضح کیا ہے۔

​ذیل میں چند اہم قرآنی آیات اور ان کا حضرت فاطمہ زہراؑ کی سیرت سے تعلق پیش کیا جاتا ہے:

​1. سورۃ الکوثر (آیت: 1-3)

​ترجمہ: ”(اے رسول!) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔ تم اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔ بے شک تمہارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا (اور مقطوع النسل ہو گا)۔“

​فضیلت: مفسرین کی ایک بڑی تعداد کے مطابق، جب پیغمبر اکرم ﷺ کے بیٹے (جناب قاسم یا جناب عبداللہ) کا انتقال ہوا تو آپ کے دشمنوں نے طعنہ دیا کہ آپ "ابتر" (بے اولاد، مقطوع النسل) رہیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورہ نازل فرمائی۔ "کوثر" کا ایک اہم مصداق حضرت فاطمہ زہراؑ کو قرار دیا گیا ہے، جن کے ذریعے پیغمبر ﷺ کی نسل قیامت تک باقی رہی۔ یہ آپ کی عظمتِ نسب اور بقائے آلِ رسول کی دلیل ہے۔

​2. آیۂ تطہیر (سورۂ احزاب، آیت 33)

​ترجمہ: ”اے (پیغمبر کے) اہل بیت! اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی کو دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک و پاکیزہ کر دے۔“

​فضیلت: متواتر احادیث کے مطابق، یہ آیت پنجتن پاک (محمد ﷺ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ، حسینؑ) کی شان میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں حضرت فاطمہ زہراؑ کو شاملِ اہل بیت قرار دے کر ان کی معصومیت، گناہ سے پاکیزگی اور بے مثال طہارت پر مہر لگا دی گئی ہے۔

​3. سورۃ الدہر (الإنسان) (آیات 8-9)

​ترجمہ: ”اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں، ہم تم سے کسی بدلے یا شکر گزاری کے طلب گار نہیں ہیں۔“

​فضیلت: اکثر مفسرین کے مطابق، یہ آیات حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ اور ان کے فرزندوں (حسنینؑ) کے ایک واقعہ کے سبب نازل ہوئیں، جب انہوں نے لگاتار تین دن روزہ رکھا اور افطار کے وقت اپنا کھانا ضرورت مندوں (مسکین، یتیم، اور اسیر) کو عطا کر دیا۔ یہ آیت حضرت فاطمہؑ اور اہل بیتؑ کے اعلیٰ درجے کے ایثار، انفاق (خدا کی راہ میں خرچ کرنا) اور اخلاص کا ثبوت ہے۔

​4. آیۂ مباہلہ (سورۂ آل عمران، آیت 61)

​ترجمہ: ”پھر جو کوئی علم آجانے کے بعد تم سے اس بارے میں جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے، اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں، اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بلائیں، پھر مل کر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔“

​فضیلت: عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے وقت رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے صرف حضرت علیؑ (انفسنا)، حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ (ابناءنا) اور حضرت فاطمہ زہراؑ (نساءنا) کو لے کر گئے تھے۔ ان چار ہستیوں میں حضرت فاطمہؑ کا انتخاب آپ کی تمام عالم کی خواتین پر فضیلت اور عظمتِ کردار کو ظاہر کرتا ہے۔

​🌟 سیرت کا خلاصہ

​قرآن کی روشنی میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت دراصل قرآنی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے۔ ان کے چند نمایاں پہلو:

​کامل بندگی و عبادت: آپ کی شب بیداری اور نمازوں کی کثرت کا ذکر احادیث میں ہے، جس کی تائید آیتِ تطہیر سے ہوتی ہے جو آپ کے روحانی مقام کو بیان کرتی ہے۔

​ایثار و سخاوت: سورۃ الدہر کی آیات آپ کے خالص رضائے الٰہی کے لیے کی گئی بے مثال سخاوت اور ایثار کو بیان کرتی ہیں۔

​پاکیزگی و حیاء: آیۂ تطہیر آپ کی بے عیب سیرت، پاکیزہ کردار اور اخلاقی عظمت کی دلیل ہے۔ آپ پردہ اور حیا میں اس قدر کمال پر تھیں کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔

​بقاء دین کی ضامن: سورۃ الکوثر کے مطابق آپ کی ذات پیغمبر اسلام کی نسل اور دین کی بقاء کا ذریعہ بنی۔



۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

سیرت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے عبادی، اخلاقی اور سیاسی پہلو

سیرت حضرت فاطمہ زہرا( سلام اللہ علیہا) کے عبادی،  اخلاقی اور سیاسی پہلو
تحریر: انیس فاطمہ(زیبی)



مقدمہ
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت، اسلام کی ایک مکمل تصویر ہے، جس میں عبادی، اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی پہلو شامل ہیں۔ امام مہدی  عج کے ظہور کا تصور اسی نظامِ عدل کی تکمیل ہے جس کی بنیاد رسول اکرم ﷺ اور اہل بیت علیہم السلام نے رکھی۔ یہ مقالہ بتاتا ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کس طرح ظہورِ امام مہدی علیہ السلام کے لیے عملی اور اخلاقی زمینہ فراہم کرتی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ صدیقہ طاہرہ کی زندگی عدل، تقویٰ اور ظلم کے خلاف قیام کی عملی مثال ہے جو امامِ منتظر کے مشن کی بنیاد ہے۔امام مہدی علیہ السلام نے اپنی جدہ کی سیرت کو اپنے لیے "اسوہ حسنہ" قرار دیا۔ لہٰذا ظہور کے منتظرین کے لیے ضروری ہے کہ وہ فاطمی سیرت پر عمل کریں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو اسی معیار کے مطابق ڈھالیں۔ 
الف:سیرت فاطمہ زہرا (س) کے عبادی پہلو
۱. تقویٰ اور عبادت
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے تھا۔ وہ نماز، روزہ، اور ذاتی عبادات میں کامل نمونہ تھیں:
"کانت فاطمه تحرص علی العبادة و تزکیة النفس "(مستدرک الوسائل، ج۱، ص۱۲۳)
ترجمہ: فاطمہ ہمیشہ عبادت اور نفس کی تزکیہ میں کوشاں رہتی تھیں۔
۲- کامل بندگی
روایات میں ملتا ہے کہ حضرت زہراؑ اتنی دیر تک نماز میں کھڑی رہتی تھیں کہ قدم سوج جاتے تھے۔(مستدرک الوسائل، حر عاملی، ج ۱، ص ۱۲۳)
یہ نمونہ ایک روحانی بیداری والے معاشرے کی ضرورتِ اولیٰ ہے۔
۳- دوسروں کے لیے دعا
امام حسنؑ فرماتے ہیں کہ میری مادرِ گرامی ہمیشہ پہلے دوسروں کے لیے دعا کرتیں اور کہتیں:" الجار ثم الدار"—پڑوسی اول، گھر والے بعد میں۔( عیون  اخبار الرضا، ج۲، ص ۶۲)
۴-تربیتِ نسل
حضرت زہراؑ کی تربیت کا نتیجہ امام حسنؑ، امام حسینؑ اور حضرت زینبؑ کی صورت میں ظاہر ہوا، جنہوں نے دین کو نئی زندگی دی۔(مناقب ابن شہر آشوب ج۳،ص ۳۲۵)
ب- سیرت فاطمہ زہرا ( س) کےاخلاقی پہلو
امامِ زمانہؑ کے ظہور کے لئے روایات میں جس اخلاقی و ایمانی ماحول کی ضرورت بیان ہوئی ہے، وہ سب سے زیادہ سیرتِ فاطمیؑ میں نظر آتا ہے۔ اس لئے آپؑ کے اخلاقی اوصاف خود ظہور کی فکری و روحانی بنیاد ہیں۔
۱- صداقت، حق پسندی اور باطل کے مقابلے میں استقامت
حضرت زہراؑ کی پوری زندگی حق کی حمایت اور باطل سے ٹکرانے کا نمونہ ہے۔
یہ اخلاق امامؑ کے ظہور کیلئے مرکزی شرط ہے، کیونکہ امامؑ کا مشن ہی “قیامِ حق” ہے۔
رسولِ خداؐ نے فرمایا:
فاطِمَةُ صِدّیقَةٌ(الحاکم النیسابوری، المستدرک، ج3، ص159)
جو معاشرہ حق پر ثابت قدم نہ ہو، وہ امامِ عدل کی نصرت کے قابل نہیں ہوتا۔فاطمہؑ کا “صدّیقہ ہونا” امت کو ظہور کے لئے اخلاقی استقامت سکھاتا ہے۔
۲- اعلیٰ ترین حیا و عفت — ظہور کے لئے روحانی پاکیزگی کا معیار
امامِ زمانہؑ کے اصحاب کے بارے میں روایت ہے کہ وہ پاکیزہ کردار والے ہوں گے۔
حضرت فاطمہؑ کی حیا تمام انسانوں کے لئے کامل نمونہ تھی۔
رسولِ اکرمؐ نے فرمایا:"اِنَّ فاطِمَةَ لَتَسْتَحْیِی مِنَ اللهِ حَقَّ الحَیاءِ"(بحار الانوار، ج43، ص75)
فاطمی حیا ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کرتی ہے جوباطنی پاکیزہ،روحانی طور پر مضبوط،اور گناہوں سے دور ہوتا ہے۔یہی ماحول ظہور کا مقدمہ ہے۔
۳- ایثار، سخاوت اور نوعِ انسانی سے محبت
ظہور کے ساتھی وہ ہوں گے جو دوسروں کے لئے ایثار کرنے والے ہوں گے۔
حضرت فاطمہؑ نے تین دن کا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو دے کر عطا و ایثار کی بلند ترین مثال قائم کی۔(سورہ الدہر، آیات 8–9)
"وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا..."
ایثار وہ اخلاقی فضا بناتا ہے جس پر امامؑ کی عدالت قائم ہونا ہے۔
ظہور کے “نصرت گار” فاطمی اخلاق کے وارث ہوں گے۔
4- صبر اور استقامت — ظہور سے پہلے آنے والی آزمائشوں کے لئے تیاری
ظہور سے پہلے سخت فتنوں کا زمانہ ہوگا۔ جو قوم صبر نہ رکھے وہ امام کی پیروی نہیں کر سکتی۔
حضرت فاطمہؑ نے سب سے زیادہ ظلم اور غربت کے باوجود صبر کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
"اِنَّما سُمِّیَت فاطِمَةُ الزَّهْراءُ لِصَبْرِها"(عیون المعجزات، ص50)
فاطمی صبر مؤمنین کو ظہور سے پہلے کے امتحانات میں مضبوط بناتا ہے
۵- عبادت، دعا اور روحانی ربط — ظہور کے حقیقی منتظر کی بنیاد
حضرت فاطمہؑ رات بھر عبادت اور دعا کرتی تھیں۔
ان کی خاص دعا تھی: "الجارُ ثُمَّ الدّار" (پہلے دوسروں کے لئے، پھر اپنے لئے)۔(شیخ صدوق، الأمالی، ص182)
امامؑ کے حقیقی منتظر کی نشانی یہ ہے کہ وہ:عبادت گزار،اللہ سے وابستہ،اور مخلوق کا خیرخواہ ہو۔یہ سب فاطمی اخلاق کے اوصاف ہیں۔
۶- حسنِ معاشرت، نرمی اور خوش اخلاقی — ظہور کے عدل پسند معاشرے کا نمونہ
امامؑ کے اصحاب:نرم دل،خوش گفتار،اور با اخلاق ہوں گے۔حضرت فاطمہؑ نے کبھی کسی سے سخت کلامی نہیں کی۔
امام حسنؑ:میں نے اپنی والدہ کو کبھی کسی کے ساتھ بدکلامی کرتے نہ دیکھا"(بحارالانوار، ج43، ص81)
ظہور وہیں ہوگا جہاں معاشرہ اخلاقِ فاطمی سے آراستہ ہو۔
۷- علم، بصیرت اور حق کی معرفت — امامؑ کے شناخت کنندہ افراد کی تربیت
فاطمہؑ کا خطبہ فدکیہ فکری بصیرت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
امامؑ کے ظہور کے لئے “بصیرت” بنیادی شرط ہے۔(الاحتجاج للطبرسی، ج1، ص109–150)
بصیرت کے بغیر امام کی شناخت ممکن نہیں،اور بصیرت کا سرچشمہ فاطمی تعلیم و اخلاق ہے۔
ج-سیرت فاطمہ زہرا(س) کے سیاسی پہلو
۱- دفاعِ ولایت
حضرت زہراؑ نے خطبہ فدکیہ میں نہ صرف اپنا حق بیان کیا بلکہ ولایتِ علویؑ کے اصولی مقام کی بھی وضاحت فرمائی۔(الاحتجاج  طبرسی، ج۱،ص ۹۹)
یہی اصول مہدیؑ کے ظہور کی فکری بنیاد ہے۔
۲-عدل کے لیے اجتماعی آواز
خطبے میں حضرتؑ نے عدلِ اجتماعی، قرآن کی اہمیت اور امت کی اصلاح کی ضرورت بیان کی۔(الاحتجاج،طبرسی، ج۱،ص۹۹)
ظہور ایک ایسے معاشرے میں ممکن ہے جو عدل کو اپنا معیار بنائے۔
۳- سیرتِ فاطمی اور ثقافتِ انتظار
۳-۱- انتظار حرکت ہے، سکون نہیں
حضرت زہراؑ کی زندگی جہدِ مسلسل ہے۔ انتظارِ فعال کا یہی مطلب ہے—اصلاح اور اقدام(آفاق مھدویت )
۳-۲- پاکیزگی (طہارت)
طہارت حضرت زہراؑ کی بنیادی صفت ہے۔ آیتِ تطہیر اس کی گواہی دیتی ہے(القران، آیت تطہیر، سورہ احزاب ۳۳)
طہارتِ باطن، ظہور کے لیے فرد و معاشرے کی پہلی شرط ہے۔
۳–۳. ظلم کے خلاف قیام
حضرتؑ نے ظلم، تحریف اور گمراہی کے خلاف آواز اٹھائی۔ مہدیؑ کا عالمی قیام بھی ظلم کے خاتمے کے لیے ہے، لہٰذا منتظر معاشرہ ظلم برداشت نہیں کرتا۔(ملحقات نہج البلاغہ،خطبہ ۲۰۳)
۳-۴- مظلومیت اور حق پر استقامت
آپ کی زندگی مظلومیت کے خلاف حق کی بازیگری کی مثال ہے۔ خلافت کے دور میں اپنے والد حضرت محمد ﷺ اور اہل بیت کی حمایت میں کھڑی رہیں۔
۳-۵- مادری اور ذریعی مقام
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ اس کے ذریعے عدل اور ولایت کی تسلسل قائم ہے۔
تیسراباب: سیرتِ فاطمہ اور زمینہ سازیٔ ظہور
حضرت فاطمہ کی مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ظلم کے سامنے خاموش نہ رہنا، عدل کا علم بلند کرنا، اور دین و ولایت کی پاسداری کرنا زمینہ سازی کا حصہ ہے۔زمینہ سازی کا مطلب صرف عقیدہ نہیں بلکہ عملی زندگی کی تیاری ہے: اخلاق، عبادت، معاشرت اور اصلاحِ معاشرہ۔حضرت فاطمہ کی زندگی یہ درس دیتی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لیے انتظار کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔
نتیجہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت عدل، تقویٰ اور ظلم کے خلاف قیام کی عملی مثال ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لیے ضروری ہے کہ امت اپنی زندگی، کردار اور معاشرتی تعلقات کو اسی اصول پر ڈھالے۔ زمینہ سازی صرف عقیدہ نہیں بلکہ عملی کوشش بھی ہے۔ فاطمی سیرت پر عمل کرنے والے ہی حقیقی منتظر کہلائیں گے۔سیرتِ حضرت فاطمہؑ ایک کامل مهدوی تربیتی ماڈل ہے۔ایمان، ولایت، عدل اور اخلاق پر قائم ایسا معاشرہ خود بخود ظہور کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اپنی زندگی، کردار، اور معاشرت میں اصلاح کریں، علم و معرفت حاصل کریں، عدل و انصاف کو فروغ دیں اور دعا کے ذریعے اپنے آپ کو امامؑ کے ظہور کے لیے تیار کریں۔ یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔امام زمانہؑ کے ظہور کے لیے ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم خود کو، اپنے معاشرہ کو اور اپنی زندگی کو وہ معیار دیں جو امامؑ کی توقع کے مطابق ہو۔ ظہور کا انتظار دراصل خود سازی، معاشرتی اصلاح اور الٰہی نظام کی تیاری ہے۔
 
حوالہ
قرآن کریم
بحارالانوار، علامہ مجلسی، 
نہج البلاغہ، خطب و نامه‌ها، ترجمہ
مستدرک الوسائل، حر عاملی
عیون اخبار الرضا
مناقب ابن شھر آشوب
آفاق مھدویت
الاحتجاج،طبرسی


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض نمایاں پہلو

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض نمایاں پہلو

تحریر: شبنم فاطمہ

حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور حضرت خدیجة الکبری (سلام اللہ علیہا) کی بیٹی ہیں اور *زہراء ، صدیقہ، طاہرہ، مبارکہ، زکیہ، راضیہ، محدثہ اور بتول آپ کے القاب ہیں۔

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی پرورش ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی آغوش اور خانہ نبوت میں ہوئی ، یہ وہ گھرانہ ہے جس میں وحی اور آیات قرآنی نازل ہوتی تھیں۔

جس وقت مکہ میں مسلمانوں کا سب سے پہلا گروہ خدائے وحدہ لاشریک کی وحدانیت پر ایمان لایا اور اپنے ایمان پر باقی رہا ، اس سال پور ے عرب اور پوری دنیا میں یہ تنہا ایسا گھر تھا جس سے ” اللہ اکبر“ کی آواز بلند ہوئی ۔ اور حضرت زہرا (س) مکہ کی سب سے کمسن بچی تھیں جو اپنے اطراف میں ایسے جوش و خروش دیکھ رہی تھیں، آپ اپنے گھر میں اکیلی تھیں، اور بچپنے کی زندگی کو تنہائی میں گذار رہی تھیں ۔

شاید اس تنہائی کا راز یہ تھا کہ آپ بچپنے ہی سے اپنی ساری توجہ کو جسمانی ریاضت اور روحانی تربیت کی طرف مجذوب کردیں۔ حضرت زہرا (علیہا السلام)، حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے شادی کے بعد پوری دنیا میں نمونہ خاتون کی حیثیت سے افق عالم پر چمکیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دختر گرامی جس طرح ازدوا ج کے مراحل میں سب کے لئے نمونہ اور اسوہ عمل تھیں اسی طرح اپنے پروردگار کی اطاعت میں بھی نمونہ تھیں۔

جب آپ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تھیں تو عبادت میں مشغول ہوجاتی تھیں، نماز پڑھتیں،دعا کرتیں،خداکی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتیں اور دوسروں کے لئے دعائیں کرتی تھیں، امام *صادق*(علیہ السلام) اپنے جد امجد *حضرت امام حسن بن علی* (علیہ السلام) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: میری والدہ گرامی شب جمعہ کو صبح تک محراب عبادت میں کھڑی رہتی تھیں اور جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتیں تو باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا فرماتیں، لیکن اپنے لئے کچھ نہیں کہتی تھیں، ایک روز میں نے سوال کیا: اماں جان ! آپ دوسروں کی طرح اپنے لئے کیوں دعائے خیرنہیں کرتیں؟ آپ نے کہا: میرے بیٹے ! پڑوسیوں کا حق پہلے ہے ۔ وہ تسبیح جو حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کے نام سے مشہور ہے ، شیعہ اور اہل سنت کی مشہور ، معتبر کتابوں اور دوسری اسناد میں موجود ہے اورسب کے نزدیک مشہور ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کا کسب علم

حضرت فاطمہ (علیہاالسلام) نے شروع ہی سے وحی الہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا ، جن اسرار و رموز کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لئے بیان فرماتے تھے حضرت علی علیہ السلام ان کو تحریر فرماتے اور حضرت فاطمہ (س) ان کو جمع فرماتیں جو *مصحف فاطمہ* کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع ہوگئی ۔

دوسروں کو تعلیم دینا

حضرت فاطمہ (علیہا لسلام) احکام اوراسلامی تعلیمات کے ذریعہ عورتوں کو ان کی ذمہ داری سے آشنا کراتی ۔ آپ کی کنیز اور شاگردہ فضہ بیس سال تک قرآن کی زبان میں کلام کرتی رہی اور جب بھی وہ کوئی بات کہنا چاہتی تو قرآن کی آیت کے ذریعہ اپنی بات کو بیان کرتیں۔

حضرت فاطمہ (علیہ السلام) نہ یہ کہ صرف علم حاصل کرنے سے تھکتی تھیں، بلکہ دوسروں کو کو دینی مسائل سکھانے میں حوصلہ ، ہمت اور پیہم کوشش کرتی رہتی تھیں، ایک روز ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میری والدہ بہت بوڑھی ہیں اور ان سے نماز میں غلطی ہوگئی ہے انہوں نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے مسئلہ معلوم کروں۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس کے سوال کا جواب دیدیا ، وہ خاتون دوسری اورتیسری مرتبہ پھر سوال کرنے آئی اور اپنا جواب سن کر چلی گئی اس نے تقریبا دس مرتبہ یہ کام انجام دیا اور ہر مرتبہ آپ نے اس کے سوال کا جواب دیا،وہ خاتون بار بار کی رفت و آمد سے شرمندہ ہوگئی اور کہنے لگی: اب میں آپ کو زحمت نہیں دوں گی ،حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے فرمایا: دوبارہ بھی آنا اور اپنے سوالوں کے جواب معلوم کرنا تم جس قدر بھی سوال کروگی میں ناراض نہیں ہوؤں گی ،کیونکہ میں نے اپنے والدماجد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا ہے آپ نے فرمایا: قیامت کے روز علماء ہمارے بعد محشور ہوں گے اور ان کو ان کے علم کے مطابق قیمتی لباس عطاکیے جائیں گے اور ان کا یہ ثواب اس قدر ہوگا جس قدر انہوں نے بندگان الہی کی ہدایت و ارشاد میں کوشش کی ہوگی ۔

عبادت حضرت فاطمہ (علیہا السلام)


حضرت زہرا (علیہا السلام)رات کے ایک حصہ میں عبادت میں مشغول رہتی تھیں، آپ کی نماز شب اس قدرلمبی ہوجاتی تھی کہ آپ کے پاہائے اقدس متورم ہوجاتے تھے ۔ *حسن بصری* (متوفی ۱۱۰) کہتا ہے: اس امت کے درمیان کوئی بھی زہد و عبادت اور تقوی میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے زیادہ نہیں تھا ۔

آپ کا بابرکت گلوبند

ایک روز پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور اصحاب آپ کے چاروں طرف حلقہ بنائے ہوئے تھے ، ایک بوڑھا شخص پھٹے پرانے لباس اور بری حالت میں مسجد میں داخل ہوا اس میں چلنے کی بھی ہمت نہیں تھی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) اس کے پاس گئے اور اس کی احوال پرسی کی ، اس شخص نے جواب دیا: یا رسو ل اللہ! میں ایک پریشان حال فقیر ہوں، بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائیے، برہنہ ہوں مجھے لباس دیجئے، لاچار ہوں میری مشکل کو مشکل کردیجئے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے فرمایا: اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے” لیکن خیرکی طرف راہنمائی کرنا خیرکرنے کی طرح ہے “ پھر آپ نے اس کی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر کی طرف راہنمائی فرمائی ۔

اس بوڑھے آدمی نے مسجد اور حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کے گھر کا فاصلہ طے کیا اور اپنی حاجت کو آپ سے بیان کیا ۔ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: ہمارے گھر میں بھی اس وقت کچھ نہیں ہے پھر آپ نے اپنا وہ گلوبند جوجناب حمزہ بن عبدالمطلب کی بیٹی نے آپ کو ہدیہ کیا تھا اپنے گلے سے کھولا اور اس بوڑھے فقیر کو دیدیا اور فرمایا: اس کو بیچ دینا انشاء اللہ تمہاری حاجت پوری ہوجائے گی ، وہ بوڑھا فقیر مسجد میں آیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اسی طرح اصحاب کے درمیان مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے یہ گلوبند مجھے عطا کیا ہے تاکہ میں اس کو بیچ کر اپنی حاجت کو پورا کروں ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے گریہ فرمایا، عمار یاسر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس گلوبند کو خرید لوں؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے فرمایا: جو بھی اس کو خریدے گا خداوندعالم اس کو عذاب سے محفوظ رکھے گا ۔

عمار یاسرنے فقیر سے پوچھا : اس گلو کو کتنے میں فروخت کرو گے؟ اس فقیر نے کہا: اس روٹی اور گوشت کے بدلے میں جس سے میرا پیٹ بھر جائے، اس لباس کے بدلے جس سے میرا جسم ڈھک جائے اور ایک دینار کے بدلے میں جس سے میں گھرتک پہنچ جاؤں ، عمار نے کہا: میں اس ہار کو سونے کے بیس دینار، کھانا، لباس اور ایک سواری کے بدلے تجھ سے خریدتا ہوں، عمار اس فقیر کو اپنے گھر لے گئے اس کو سیراب کیا، لباس پہنایا، سواری دی اور سونے کے بیس دینار دئیے، پھر اس ہار پر خوشبو لگا کر اس کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اپنے غلام سے کہا: اس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) کی خدمت میں لے جاؤ، میں نے تمہیں بھی انہی کو بخش دیا ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بھی اس غلام اور گلوبند کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو بخش دیا، غلام حضرت فاطمہ کے نزدیک آیا ، آپ نے اس سے گلوبند کو لے لیا اور غلام سے فرمایا: میں نے تجھے خدا کی راہ میں آزاد کردیا، غلام ہنسا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے اس سے ہنسنے کا سبب دریافت کیا ، اس نے جواب دیا: یا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ! اس گلوبند کی برکت پر مجھے ہنسی آگئی کہ اس ہار نے ایک بھوکے کو کھانا کھلایا، ایک برہنہ کو کپڑے پہنائے،فقیر کو غنی کیا ، پیدل چلنے والے کو سواری عطا کی ، غلام کو آزاد کیا اور آخر کار پھر اپنے مالک کے پاس واپس آگیا ۔

اسلام کی پہلی جنگوں میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کا کردار

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) کی دس سالہ حکومت میں ۲۷ یا ۲۸ غزوہ اور ۳۵ سے۹۰ تک سریہ تاریخ میں ذکر ہوئے ہیں۔غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور مستقیم لشکر کی کمان سنبھالی اور جنگ میں ہر وقت سپاہیوں کے شانہ بشانہ حاضر و ناضر تھے ۔سریہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی اور کو اپنی جگہ سپہ سالار بنا کر بھیجا بعض مرتبہ یہ جنگیں دو یا تین ماہ تک جاری رہتی تھیں، اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ مشترکہ زندگی کو اکثر و بیشتر میدان جنگ یا تبلیغ میں گذاری اور آپ کی غیر موجودگی میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام)گھر کی ذمہ داری اور بچوں کی تربیت میں مشغول رہتیں، اور آپ اس کام کو اس طرح انجام دیتی تھیں کہ آپ کے مرد مجاہد شوہرنامدار اچھی طرح سے جہاد کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے اور پھر آپ اس عرصہ میں شہیدوں کی عورتوں اور بچوں کی مدد فرماتیں، اور ان سے ہمدردی کا اظہار کرتیں اور کبھی کبھی مدد کرنے والی عورتوں کی تشویق کیلئے اور ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے کیلئے اپنے محرم افراد کے زخموں کا مداوا کرتیں، جنگ احد میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) عورتوں کے ساتھ احد کے میدان (احد ، مدینہ سے چھ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے) میں گئیں اس جنگ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے جسم اقدس پر بھی بہت زیادہ زخم لگے تھے ۔ حضرت فاطمہ (علیہا السلام) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چہرہ سے خون صاف کرتی تھیں اور حضرت علی (علیہ السلام) اپنی سپر سے پانی ڈالتے تھے ۔


جب حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) نے دیکھا کہ خون بند نہیں ہو رہا ہے تو آپ نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ کو زخم پر لگایا جس سے خون بند ہوگیا ، جنگ احد میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چچا حضرت حمزہ سید الشہداء کی شہادت ہوئی ۔ جنگ کے بعد حضرت حمزہ کی بہن ”صفیہ“، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کے ساتھ آپ کے مُثلہ شدہ لاشہ پر پہنچی اور رونا شروع کیا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام)بھی گریہ فرما رہی تھیں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی آپ کے ساتھ گریہ فرمارہے تھے اور حضرت حمزہ سے خطاب کرکے فرماتے تھے: تمہاری مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھ پر نہیں پڑی ، پھر صفیہ اور حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کو خطاب کرکے فرمایا: مبارک ہو ابھی جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ ساتوں آسمانوں پر حمزہ شیر خدا اور شیر رسول خدا موجود ہے ، جنگ احد کے بعد جب تک حضرت فاطمہ (علیہا السلام)زندہ رہیں، ہرتیسرے دن ایک مرتبہ احد کے شہداء کی زیارت کے لئے جاتی تھیں، جنگ خندق میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) ایک روٹی لے کر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں آئیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سوال کیا: یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے روٹی پکائی تھی میرا دل چاہا کہ یہ روٹی آپ کے لئے لیکر آؤں۔

پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا یہ پہلی روٹی ہے جو میں تین دن کے بعد کھا رہا ہوں، جنگ موتہ میں جعفر بن ابی طالب کی شہادت ہوئی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے گھر گئے اور ان کے بیوی بچوں کو دلاسہ دیااور وہاں سے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر تشریف لائے حضرت فاطمہ (علیہا السلام)گریہ فرمارہی تھیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جعفر جیسے اشخاص پر رونے والوں کو رونا چاہئے، اس کے بعد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جعفر کے بچوں کے لئے کھانا تیار کروکیونکہ آج وہ اپنے آپ کو بھول گئے ہیں، حضرت فاطمہ (علیہا السلام)فتح مکہ میں بھی موجود تھیں۔

حضرت زہرا (علیہا السلام) اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زندگی کے آخر لمحات

آخری ایام میں پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیماری نے شدت اختیار کرلی تھی ، حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بستر کے کنارے کھڑی ہوئی آپ کے نورانی چہرہ کی طرف دیکھ رہی تھیں، آپ کے چہرہ پر بخار کی تپش سے پسینہ آرہا تھا ، حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام اپنے والدبزرگوار کو دیکھتی جاتی تھیں اور گریہ فرمارہی تھیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی بیٹی کی پریشانی کو برداشت نہ کرسکے، آپ نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے کان میں کچھ کہا جس سے آپ کو سکون مل گیا اور آپ مسکرائیں، اس وقت حضرت فاطمہ علیہا السلام کی مسکراہٹ بڑی تعجب آور تھی، آپ سے سوال کیا گیا: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ سے کیا فرمایا؟ آپ نے جواب دیا: جب تک میرے والدبزرگوار زندہ ہیں میں اس راز کو بیان نہیں کروں گی، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے بعد وہ راز آشکار ہوگیا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے کہا: میرے والد بزرگوار نے مجھ سے کہا: میرے اہلبیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی ، اس وجہ سے میں خوش ہوگئی ۔



۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

خصوصیات و فضائل حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام

خصوصیات و فضائل حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام

تحریر : محسنه رضوی

تمہید:

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ اور امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ حضرت فاطمہ کے بلندی مقام کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ولادت کو اپنے نبی کے لیے بابرکت قرار دیا، ان کو "خیرِ کثیر" کا لقب دیا، اور ان کی شان میں سورۂ کوثر نازل فرمائی۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام‌اللہ‌علیہا) کے اسماء، القاب اور کنیتیں

شیخ صدوق اور شیخ کلینی نے امام جعفر صادق (علیہ‌السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے یونس بن ظبیان سے فرمایا: فاطمہ (سلام‌اللہ‌علیہا) کے خداوندِ عالم کے نزدیک نو نام ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدّثہ، زہرا۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ فاطمہ کا معنی کیا ہے؟ یونس کہتا ہے: میں نے عرض کیا، اے میرے مولا! مجھے خبر دیجئے۔ امام صادق (ع) نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر بُرائی سے جدا کی گئی ہے، اور اگر امیرالمؤمنین (علیہ‌السلام) ان سے شادی نہ کرتے تو قیامت تک حضرت آدم (ع) سے لے کر ان کے بعد تک زمین پر ان کے برابر کوئی بھی نہیں ہوتا۔ امام صادق (علیہ‌السلام) سے یہ بھی پوچھا گیا کہ فاطمہ (سلام‌اللہ‌علیہا) کو “زہرا” کیوں کہا جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ جب وہ عبادت کے لیے محراب میں کھڑی ہوتیں، ان کے نور کی چمک آسمان والوں کے لیے ظاہر ہوتی، جیسے زمین والوں کے لیے ستاروں کی روشنی ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ مجلسی نے اپنی مشہور کتاب "بحارالانوار" میں ابن شہر آشوب کی "مناقب" سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ (علیہا‌السلام) کی کنیتیں أم الحسن (ام الحسن)، أم الحسین (ام الحسین)، أم الأئمة (ام الائمہ) اور أم أبیها (اپنے باپ کی ماں) ہیں۔ حضرت کے بعض دیگر اسماء و القاب یہ ہیں: أنسیة – ایسی خاتون جن میں بہترین انسانی اخلاق جلوہ گر ہوں۔ بتول – پاکیزہ خاتون جو ہر طرح کی آلودگی سے دور ہو۔ تقیة – پاک اور بے گناہ۔ حبیبة – دوست، محبوب، حوراء – فرشتہ صفت خاتون، جو فرشتوں جیسے پاکیزہ اوصاف رکھتی ہوں۔ کوثر – خیر و برکت کا سرچشمہ، وہ خاتون جن میں بے شمار خیر و برکت ہو۔ ریحانة – خوشبو دار، لطیف اور مہربان پھول۔

قرآن میں حضرت فاطمہ (س) کا مقام ومرتبه

قرآنِ مجید میں تقریباً تیس آیتیں ایسی ہیں جن کی تفسیر یا تاویل حضرت فاطمہ زہرا (س) سے منسوب کی گئی ہیں ۔ ذیل میں چند نمایاں مقامات کا ذکر کیا جا رها ہے

آیۂ مودّت (آیۂ قربیٰ) :

 قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَىٰ (سورۃ الشوریٰ، آیت 23) ترجمہ: (اے نبی!) کہہ دیجیے : میں تم سے اپنی رسالت پر کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا، سوائے اس کے کہ تم میرے قرابت داروں سے مودت اختیار کرو ۔ اس آیت کی تفسیر میں "قربیٰ" سے مراد حضرت علی (ع)، حضرت فاطمہ (س)، حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) ہیں۔

آیۂ مباہلہ:

 فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکَاذِبِینَ (سورۃ آل عمران، آیت 61) ترجمہ: پس اگر کوئی شخص تمہارے علم کے آنے کے بعد بھی عیسیٰ کے بارے میں جھگڑا کرے، تو کہہ دو:ہم اپنے بیٹے کو لاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ، ھم اپنی عورتوں کو لاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو لاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں تم اپنے نفسوں کو لاؤ ، پھر دعا کریں کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ھو ۔ معتبر تاریخی روایات کے مطابق، رسولِ اکرم (ص) مباہلہ کے موقع پر صرف حضرت علی (ع) کو مردوں میں سے، حضرت فاطمہ (س) کو عورتوں میں سے، اور حضرت حسن و حسین (ع) کو بچوں میں سے اپنے ساتھ لے گئے۔

آیاتِ سُورۂ انسان (آیات 7 تا 9)

 : یُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُونَ یَوْمًا کَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِیرًا * وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا * إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِیدُ مِنکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا ترجمہ: وہ لوگ اپنی نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوگی۔ وہ خدا کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم تمہیں صرف خدا کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں، نہ تم سے صلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ شانِ نزول کے مطابق، جب حضرت حسن (ع) اور حسین (ع) بیمار ہوئے، تو حضرت علی (ع)، حضرت فاطمہ (س) اور فضہ نے نذر مانی کہ صحت یابی پر تین دن روزہ رکھیں گے۔ صحت ملنے کے بعد جب روزے رکھے تو ہر دن افطار کے وقت اپنا کھانا ایک مسکین ، ایک یتیم اور ایک اسیر کو دے دیا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

سورۂ کوثر :

 إنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ * فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ * إِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْأَبْتَرُ (سورۃ الکوثر، آیات 1-3) ترجمہ: بے شک ہم نے تمہیں خیرِ کثیر عطا کیا ہے۔ لہٰذا اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی دو۔ یقیناً تمہارا دشمن ہی بے نسل ہے۔ اہلِ تفسیر کے مطابق "کوثر" سے مراد خیرِ کثیر ہے، جو پیغمبر اکرم (ص) کی نسلِ پاک کے ذریعے باقی رہی — اور یہ نسل صرف حضرت فاطمہ زہرا (س) کے ذریعہ سے آگے بڑھی۔ چونکہ رسول کے صاحبزادے بچپن میں وفات پا گئے تھے، کفار نے کہا کہ وہ اب “ابتر” (بے اولاد) ہیں۔ خدا نے اسی الزام کا جواب دیا کہ دشمنِ رسول ہی دراصل بے نام و نشان رہے گا۔

خصوصیات و فضائل حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)

یہاں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کچھ اہم صفات اور خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے :

۱- علمِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)

اهلبیت ع  علمِ خداوندی کے خزانے ہیں۔ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ایسی عالمہ تھیں جنہوں نے اپنا علم کسی مکتب یا اُستاد سے حاصل نہیں کیا، بلکہ وہ رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آغوشِ مبارک میں پروان چڑھیں اور وحی الٰہی کی حامل تھیں۔ حضرت کے گہرے معانی رکھنے والے فرمودات، خطبات، دعائیں اور روایات، ان کے علمِ الٰہی ھونے کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کے تربیتی کردار اور عملی سیرت — جیسا کہ اولاد کی پرورش، بہترین ہمسری، امت کی رہنمائی، اور خاص طور پر خواتین کے لیے نمونہ بننا — سب حضرت کے اعلیٰ علمی مقام کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت فاطمہ (س) قرآن کے علوم اور گزشتہ ادیان و شریعتوں کے احکام سے واقف تھیں، لکھنا پڑھنا جانتی تھیں، اور عورتوں سے متعلق مذہبی سوالات کے جوابات بھی دیا کرتی تھیں۔ "مصحفِ فاطمہ" بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کے اندر علوم و معارفِ الٰہی کو قبول کرنے کی بے پناہ استعداد تھی۔ چونکہ ظرف اور مظروف میں مطابقت ضروری ہے، لہٰذا اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کس قدر گہری بصیرت اور حقیقتِ آفرینش کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: "نزدیک آؤ تاکہ تمہیں ماضی، حال اور مستقبل کے تمام واقعات جو قیامت کے دن تک آنے والے ہیں بتا دوں۔" حضرت فاطمه س کے وسیع و عمیق علم کی بہترین شہادت وہی خطبات ہیں، خصوصاً "خطبہ فدکیہ" جو اُنہوں نے مدینہ کی مسجد میں مہاجرین و انصار کے سامنے خلیفه اول کے ساتھ احتجاج فرمایا۔

۲- عبادتِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)

حضرت فاطمہ(س) عبادت میں بے مثال تھیں۔ وہ اس مقام تک پہنچ گئیں کہ دنیا کی بہترین خواتین اور جنت کی عورتوں کی سردار قرار پائیں۔ امام حسن مجتبیٰ (ع) فرماتے ہیں: میں نے اپنی ماں کو شب جمعه محراب عبادت میں دیکھا، وہ مسلسل رکوع و سجود میں رہیں یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

حسن بصری کہتے ہیں: دنیا میں فاطمہ (س) سے زیادہ عبادت گزار کوئی نہیں دیکھا گیا۔ وہ اتنا طویل قیامِ کرتی تھیں کہ ان کے پاؤں ورم کرجاتے تھے۔ عبادت کے وقت وہ اس قدر خضوع و خشوع میں ڈوب جاتیں کہ اپنے اہل و عیال کی فکر سے بھی غافل ہوجاتیں، باوجود اس کے کہ انہیں اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ اس حالت میں خداوند عالم فرشتوں کو بھیجتا تھا تاکہ وہ ان کے بچوں کے جھولے جھلائیں۔

۳- عصمتِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)

عصمت کا مطلب ہے خطا، لغزش اور گناہ سے محفوظ رہنا۔ حضرت فاطمہ (س) کی عصمت قرآن و احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن میں آیتِ تطہیر اور مباہلہ اس پر گواہ ہیں، اور احادیث میں آیا ہے کہ فاطمہ (س) کی ناراضگی دراصل خدا اور رسول کی ناراضگی ہے۔ حضرت زہرا (س) انبیاء و اولیاء کی طرح معصوم تھیں، کیونکہ روایات میں ان کی منزلت، نورانیت اور ولایت کو ان کے برابر بلکہ بعض لحاظ سے برتر قرار دیا گیا ہے۔ آیتِ تطہیر میں اہل‌بیتِ پیغمبر (ص) میں فاطمہ، علی، حسن اور حسین (ع) کا ذکر ہے اور ارشاد ہے کہ: "خدا صرف یہی چاہتا ہے کہ تم اہل‌بیت سے ہر ناپاکی کو دور کرے اور تمہیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ بنائے۔"

۴- حجاب اور عفتِ فاطمہ ((سلام اللہ علیہا)

حضرت فاطمہ  دنیا کی تمام عورتوں کے لیے حجاب و پردہ اور حیاء میں بہترین نمونہ ہیں۔ ایک مرتبہ جب آپ کے والدِ گرامی (رسول اکرم ﷺ) ایک نابینا شخص کے ساتھ آپ کے گھر آنے لگے، تو آپ نے فرمایا: ’’اجازت دیجیے کہ میں خود کو ڈھانپ لوں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بیٹی! یہ شخص نابینا ہے۔‘‘ تو حضرت فاطمہ (ع) نے عرض کیا: ’’اے پدرِ بزرگوار! میں تو اسے دیکھتی ہوں یہ جواب ان کے کمالِ حیاء کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک نابینا مرد سے بھی پردہ فرماتی تھیں۔ یہاں تک کہ اپنی وفات کے وقت بھی انہیں اپنے پردے اور جسم کے حجم کے چھپنے کا خیال تھا۔ جب ان کی خادمہ نے انہیں بتایا کہ تابوت اس طرح بنایا جا سکتا ہے کہ جسم کا اندازہ ظاہر نہیں ہوگا، تو حضرت فاطمہ (ع) کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔

۵- خشیتِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)

’’خوف ‘‘  گناہ اور اعمال کی کمی کے ڈر کو کہتے ہیں، جبکہ ’’خشیت‘‘ خدا کی عظمت اور جلالت سے پیدا ہونے والے خوف کو۔ حضرت فاطمہ (ع) کے دل میں دونوں صفات جمع تھیں۔ جب وہ نماز کے لیے کھڑی ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور عظمت کے احساس سے ان کی سانسیں تیز ہو جاتیں۔

۶- کرامات و معجزات حضرت فاطمہ( سلام اللہ علیہا)

آپ کے معجزات اور کرامات اُس وقت سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے جب وہ ابھی اپنی والدہ کے شکم مبارک میں تھیں۔ جب اہلِ مکہ نے اُن کی والدہ کو، جو ایک یتیم شخص (حضرت محمدص) سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں، تنہا چھوڑ دیا تھا، اُس وقت بھی فاطمہ(س) اپنی والدہ کی مونس و غمگسار تھیں اور اُنہیں تسلی دیا کرتی تھیں۔ کئی بار صحابۂ رسول(ص) نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ(س) کے گھر میں چکّی خود بخود چل رہی ہے، اور وہاں کوئی موجود نہیں ھے ۔ وہ تعجب کرتے ہوئے رسولِ خدا(ص) کے پاس جاتے اور واقعہ بیان کرتے۔ رسولِ اکرم(ص) مسکرا کر فرماتے: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ نے ایسے فرشتے مقرر کیے ہیں جو محمد(ص) اور اُن کے اہلِ بیت(ع) کی قیامت تک مدد کرتے رہیں گے . ابو عبیدہ روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا: رسول اللہ(ص) کی وفات کے بعد فاطمہ(س) کو سخت غم اور دکھ لاحق ہوا۔ اس پر جبرائیل(ع) روزانہ اُن کے پاس آتے، اُنہیں تسلی دیتے، رسول(ص) کے مقامات و منازل سے آگاہ کرتے، اُن کی اولاد پر جو گزرے گا اُس کی خبریں دیتے اور آئندہ کے واقعات سے مطلع کرتے۔ حضرت علی(ع) ان باتوں کو ایک صحیفے میں لکھتے جاتے جسے ’’مصحفِ فاطمہ(س)‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مصحف دراصل اللہ کے لامحدود علم کی تجلیات میں سے ایک جلوہ ہے جو حضرت فاطمہ(س) کے پاکیزہ اور عظیم نفس پر نازل ہوا۔ روایات کے مطابق، اس میں ماضی و مستقبل کی تمام خبریں قیامت تک درج ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جو ائمۂ اطہار(ع) کے علمی مصادر میں سے ایک بنیادی ذریعہ ہے، اور حضرت فاطمہ(س) کے بعد ہر امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتی رہی، یہاں تک کہ اب یہ امام زمانہ(عج) کے پاس موجود ہے .یہ واقعہ سیدہ فاطمہ(س) کے لیے ایک بےمثال فضیلت ہے، کیونکہ جبرائیل(ع) کی ایسی آمدورفت بزرگ انبیائے کرام کے سوا کسی اور کے ساتھ  نہیں دیکھی گئی.

۷- وعظ و نصیحت حضرت فاطمہؑ( سلام اللہ علیہا)

عبادت میں اخلاص جو شخص اپنی خالص عبادتیں اللہ کے لیے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے بہترین مصلحت نازل فرماتا ہے- حضرت فاطمہ س فرماتی ہیں کہ صرف اخلاص کافی نہیں بلکہ دیگر شرائط کا بھی لحاظ ضروری ہے، کیونکہ بعض اوقات عبادت خالص ہوتی ہے لیکن گناہ جیسے حسد، غرور اور تکبر دعا کے عروج میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اپنے دل و باطن کو بھی پاک کرے تاکہ دعا اور عبادت اثرپذیر ہو۔

۸- نرمی و مہربانی

تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو لوگوں سے نرمی اور مہربانی سے پیش آتے ہیں، دوسروں کی عزت کرتے ہیں اور اکرام و احترام کا خیال رکھتے ہیں۔ حضرت کا ارشاد ہے کہ انسان کو اپنی ہوشیاری اس میں دکھانی چاہیے کہ وہ دوسروں پر بوجھ نہ ڈالے، بلکہ ان کے ساتھ عزت و شرافت سے پیش آئے۔

۹- مروّت کے اصول

حضرت فاطمہ (س) نے رسولِ خدا ص سے روایت کی کہ مروّت (انسانیت و شرافت) چھ چیزوں میں ہے : حالتِ حضر (گھریلو یا عام حالت میں) : قرآن کی تلاوت، مسجدوں کی آبادی، اور دینی بھائیوں سے خالصتاً اللہ کے لیے میل جول۔ سفر میں: زادِ راہ میں سخی ہونا، خوش اخلاقی، اور ایسا مزاح کرنا جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو۔

 

منابع

علامه محمدباقر مجلسی، بحار الانوار.

ابراهیم امینی، (۱۳۷۳) بانوی نمونه اسلام فاطمه زهرا علیهاالسلام، انتشارات شفق.

محمدتقی مصباح یزدی، (۱۳۸۸) جامی از زلال کوثر، انتشارات موسسه آموزش و پژوهشی امام خمینی.

سید مسعود پورسید آقایی، (۱۳۸۱) چشمه در بستر، تحلیلی از زمان شناسی حضرت زهرا علیهاالسلام، انتشارات حضور.

علی سعادت پرور، (۱۳۸۸) جلوه نور، پرتوی از فضائل معنوی فاطمه زهرا علیهاالسلام، انتشارات رویداد.

زهرا گواهی، (۱۳۷۳)، مقام علمی و کرامات حضرت زهرا (علیهاالسلام)، انتشارات طلیعه.

محبوبه ساطع، (۱۳۸۱) نور آسمانی: تاریخ و تحلیل زندگانی حضرت زهرا (س)، انتشارات فرهنگ مردم.

سید محمد حسینی بهارانچی، (۱۳۸۱)، اسوة النساء؛ بانوی نمونه عالم، انتشارات دفتر تبلغیات اسلامی حوزه علمیه قم.

هاشم رسولی، (۱۳۷۸) نمایی از زندگانی حضرت زهرا (س) و زینب کبری (س)، انتشارات سفیر صبح.

سید مهدی موسوی کاشمری، (۱۳۸۹) مقاله حضرت زهرا (س) الگوی ابرار، سایت شهر مجازی قرآن کریم وابسته به دانشگاه مجازی المصطفی.

محمدمهدی تاج لنگرودی، (۱۳۷۸) اخلاق حضرت فاطمه (س)، انتشارت واعظ.


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

حضرت فاطمہ(س) کا مختصر تعارف

حضرت فاطمہ(س) کا مختصر تعارف

تحریر: سیدہ نہاں خاتون نقوی- طالبہ مدرسہ بنت الھدی- ایران

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اسلام کی سب سے عظیم خاتون ہیں۔ آپ رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی بیٹی، حضرت علی (علیہ السلام) کی زوجہ، اور اہلِ کساء میں شامل ہیں۔ آپ کی زندگی اسلام کی تاریخ میں بہت اہم ہے۔ اسلامی روایات میں آپ کا ذکر کئی بہت زیادہ آیا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی ہر مسلمان کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے، لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ آپ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور بہترین زندگی گزارنے کے لیے آپ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں-

آپ کی زندگی عبادت، قربانی، اچھے اخلاق اور محبت سے بھری ہوئی تھی۔ مسلمان، خاص طور پر خواتین، آپ کو اپنا نمونہ مانتی ہیں۔ اس  مختصر مضمون میں ہم حضرت زہرا (س) کی زندگی کی  بعض خوبیوں اورداستان شہادت کے بارے میں جانیں گے۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) رسولِ خدا (ص) کی بیٹی تھیں۔ آپ ایک پاکیزہ گھر میں پیدا ہوئیں، جہاں اللہ کا پیغام آتا تھا۔ آپ ۲۰ جمادی الثانی ، بعثت کے پانچویں سال (تقریباً ۶۱۵ عیسوی) میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت رسولِ خدا(ص) لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔

جب حضرت فاطمہ (س) چھوٹی تھیں، تو آپ نے اسلام کی راہ میں بہت سی مشکلات برداشت کیں لیکن ہمیشہ اپنے بابا کے ساتھ رہیں اور دینِ اسلام کی مدد کرتی رہیں۔ جب آپ جوان ہوئیں، تو حضرت علی (ع) سے شادی ہوئی۔ اس شادی کے نتیجے میں چار عظیم اولاد پیدا ہوئیں: امام حسن (ع)، امام حسین (ع)، حضرت زینب (س)، اور حضرت ام کلثوم (س)۔

حضرت فاطمہ (س) نے اپنی پوری زندگی میں اپنے بابا اور شوہر کا ساتھ دیا، اور اسلام کی خدمت کی۔ آپ کی زندگی سب کے لیے ایک مثال ہے۔

 حضرت فاطمہ زہرا (س) کا ذکربہت سی حدیثوں میں آپ کے نیک اور خوبصورت ناموں کے ساتھ بھی ہوا جن میں سے چند مشہور نام یہ ہیں:

1. زہرا: یعنی بہت روشن اور چمکدار ۔ 2. طاہرہ: یعنی صاف ستھری اور نیک۔  3. صدیقہ: یعنی سچ بولنے والی اور اچھے کام کرنے والی  ۔ 4. مرضیہ: یعنی اللہ کو پسند آنے والی ۔5. بتول: یعنی وہ جو صرف اللہ کی طرف دھیان رکھتی ہیں۔

حضرت فاطمہ (س) کی خوبیاں

حضرت فاطمہ زہرا (س) بہت نیک اور پاک دل تھیں۔ آپ کی کچھ خاص خوبیاں یہ تھیں:

- ہمیشہ اللہ کا حکم مانتی تھیں اور گناہوں سے بچتی تھیں ۔

- آپ کا ایمان بہت مضبوط تھا ۔

- وہ راتوں کو اللہ سے دعا کرتی تھیں اور عبادت کرتی تھیں۔ 

- آپ نے ہمشیہ اپنے بابا(ص)  اور امام وقت مولاعلی(ع) کی حمایت کی اور حق کا ساتھ دیا ۔

- آپ اللہ کی جانب سے عظیم علم کی حامل تھیں اور علم دین لوگوں تک پہنچانے کے لئے بہت کوششیں فرماتی تھیں۔

حضرت فاطمہ(س) کی اولاد

حضرت فاطمہ (س) کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک خصوصیت نیک اور صالح اولاد کی تربیت کرنا تھی۔ آپ(س) کے درج ذیل چار فرزند تھے:

- امام حسن (ع): آپ سن ۳ ہجری میں پیدا ہوئے؛ شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔

- امام حسین (ع): سن ۴ ہجری میں پیدا ہوئے؛ شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔

- حضرت زینب (س): سن ۵ یا ۶ ہجری میں پیدا ہوئیں؛ آپ نے واقعۂ کربلا میں اہم کردار ادا کیا اور اس واقعے کی پیغام رسان تھیں۔

- حضرت اُم کلثوم (س): سن ۹ ہجری میں پیدا ہوئیں؛ آپ بھی واقعۂ کربلا میں موجود تھیں اور پیغام رسانی کا کردار ادا کیا۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے تمام فرزندوں کی ولادت، رسول خدا (ص) کی زندگی میں ہوئی  تھی اور سب نےان کی آغوش  مبارک میں تربیت کا شرف حاصل کیا تھا۔

حضرت فاطمہ(س) کی شہادت

جب سنہ11 ہجری میں،  رسولِ خدا حضرت محمد (ص) دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت فاطمہ (س) پر مشکلات و مصائب کے پہاڑ توڑے گئے، لوگوں نے آپ کو بہت دکھ دیے، جس سے آپ کی طبیعت خراب ہو گئی اورکچھ دنوں  کے بعد آپ کی شہادت ہوگئی۔

تاریخ میں لکھا ہے کہ خلافت امام علی(ع) کے غاصبوں نے ان سے زبردستی بیعت حاصل کرنے کی غرض سے، حضرت فاطمہ (س) کے گھر کا دروازہ جلاکر گرادیا گیا۔ اس وقت  شہزادی دروازے کے پیچھے تھیں، جس سے آپ کا بدن زخموں سے چور ہوگیا ۔ ان زخموں کی وجہ سے آپ بیمار ہو گئیں اور چند دن بستر پر رہیں۔ پھر مشہور روایت کے مطابق، ۳ جمادی الثانی، سنہ  11 ہجری کے دن آپ کی شہادت ہوگئی۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)، کائنات کی سب سے عظیم خاتون اور تمام خواتین کی سردار ہیں۔ عورتوں اور مردوں سب کے ایک خوبصورت نمونہ حیات ہیں۔ آپ کی زندگی ہمیں اللہ کی عبادت، ایمان، بہادری اور حق کی حفاظت کے بارے میں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ہمیں چاہئے کہ تفصیل کے ساتھ آپ کی زندگی اور تمام حالات کا مطالعہ کریں ، اس لئے کہ آپ کی زندگی میں ہدایت کی روشن راہیں اور بہترین زندگی کے لئے بہت سے نمونے موجود ہیں۔

 


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

حجاب کا اہتمام کرنے والی خواتین کے لئے پیامبر(ص) کی دعا

 

حجاب کا اہتمام کرنے والی خواتین کے لئے پیامبر(ص) کی دعا

تحریر: سیدہ نہاں خاتون نقوی- طالبہ مدرسہ بنت الھدی- ایران

اسلام نے لباس کے لئے جو قانون بتایا ہے اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلامی قانون معاشرے میں مردوں اور عورتوں کی ضرورت کے مطابق ہے، اسلام؛ مناسب لباس پہننے کی تاکید کے ساتھ ساتھ  شخصیت کی حفاظت کے پہلو پر نظر رکھتا ہے چنانچہ امام علی علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ ایک بارش کے موسوم میں ہم لوگ پیغمبر اکرم[ص] کے ساتھ قبرستان بقیع میں بیٹھے ہوئے تھے اسی درمیان ایک خاتون کی سواری وہاں سے گزر رہی تھی وہ خاتون سواری پر رکھی ہوئے چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی اچانک سواری کا پاوں ایک کھڈے میں چلا گیا جس کی وجہ سے وہ خاتون زمین پر گر گئی نبی اکرم [ص] اپنا چہرے پھیر لیا تاکہ خاتون کے جسم و اندام پر نظر نہ پڑ جائے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ[ص]، اس خاتون نے شلوار پہنا ہے [لہذا اس کا جسم دکھائی نہیں دے رہا ہے] نبی اکرم[ص]، نے یہ سن کر تین بار فرمایا:

"خدایا۔ جو خواتین شلوار پہنتی ہیں ان کے لئے اپنی مغفرت قرار دے، اپنی خواتین کے لئے شلوار پوشی کو انتخاب کرو کہ یہ بہترین لباس ہے اور عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے پر یہ لباس امنیت و حفاظت میں قرار دیتا ہے"۔

[کتاب مجموعہ ورام، ج۲، ص۷۸ عربی]

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

تسلیت

خادم الرضا علیه السلام، عالم مجاهد، رئیس جمهور ایران، جناب آیت الله سید ابراهیم رئیسی (اعلی الله مقامه) و ان کے ساتھیوں کی غمناک رحلت کے موقع  پر حضرت امام زمان(عج)، مقام معظم رهبری، ملت ایران و مرحومین کے تمام پس ماندگان کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، مسابقه و امتحان

معارف مهدوی(عج) کلاسز، مسابقه و امتحان

لینک کتاب BOOK LINK

👇👇👇👇👇

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری

معارف مهدوی(عج) کلاسز، روز: 30

🌟 امام مہدی(عج)، ولی و حاکم و امین الہی ہیں  

🌟 گذشتہ کلاس میں بیان کیا گیا تھا کہ امام مہدی(عج) حجت و نور الہی ہیں جس کی روشنی میں تمام دنیا ہدایت پاتی ہے اور ظہور کے بعد سارا جہاں آپ کے نور سے جگمگائے گا۔

آج کی کلاس میں چند دوسری خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے؛ جن کو پیغمبراکرم(ص) نےیوں بیان فرمایا ہےکہ: 👇

*"أَلا وَإِنَّهُ وَلِی الله فی أَرْضِهِ، وَحَکَمُهُ فی خَلْقِهِ، وَأَمینُهُ فی سِرِّهِ وَ علانِیَتِهِ." اے لوگو! جان لو کہ ہمارا مہدی( عج) روئے زمین پر اللہ کا ولی ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے مخلوقات پر حاکم ہے۔ وہ ظاہری اور پوشیدہ چیزوں میں اللہ کا امین ہے۔*

پیغمبر اکرم (ص) نے ان جملوں امام زمانہ( عج) کی تین اہم صفات کو بیان فرمایا ہے جو امام کے اہم مقام و منصب بھی ہیں:

۱- ہمارا مہدی( عج) اللہ کا ولی ہے۔

۲۔ ہمارا مہدی (عج )اللہ کی طرف سے تمام مخلوقات کے لئے حاکم اور فیصلہ کرنے والا ہے۔

۳۔ ہمارا مہدی( عج) ظاہری اور پوشیدہ چیزوں میں اللہ کا امین ہے۔

"ولی"  انسان کے سرپرست کو کہا جاتا ہے جس کو انسان کی ہرچیز پر پورا اختیار ہوتا ہے۔ ولی انسان پر خود اس کی ذات سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ انسان کو پیدا کیا ہے۔ انسان کو وجود بخشا ہے لہذا وہ انسان پر سب سے زیادہ حق اور اختیار رکھتا ہے اور انسان کا حقیقی سرپرست وہی "اللہ" ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے :  "اللہ صاحبان ایمان کا ولی و سرپرست ہے" [سورہ بقرہ، آیت۲۵۷۔آل عمران، آیت۶۸ ] ۔

اللہ کی طرح صرف وہی انسان کا سرپرست اور ولی ہوسکتا ہے جس کو اللہ نے اجازت دی ہو۔ جیسا کہ رسول اور امام علی ع کے لئے فرمایا ہے کہ: "تمہارا ولی اللہ اور رسول اور وہ ہے جو حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں" [مائدہ آیت۵۵]۔

حضرت امام مہدی (عج) سلسلہ امامت کی آخری کڑی ہے اور آپ ہی تمام پیغمبروں اور اماموں کے وارث ہیں لہذا ان سب کی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی اپنی جانب سے"ولی" بنایا ہے لہذا گیارہویں امام کے بعد غیبت کے زمانے میں اور ظہور کے بعد صرف اور صرف آپ کی "ولی خدا" ہیں۔ آپ ہی کو تمام لوگوں پر ان کے نفسوں سے زیادہ اختیار ہے۔

رسول اور اماموں کے "ولی اللہ" ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ حضرات ایک طرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے گہرا رابطہ رکھتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کے بندوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں لہذا اللہ کی طرف سے ہدایت، حکومت، دین و دنیا کے انتظام، لوگوں کے لئے رحمت و برکت و لطفِ الہی کو پہونچانے وغیرہ میں ذریعہ ہوتے ہیں۔ اور انسانیت کو کمال تک پہونچاکر رحمت الہی میں داخل کرتے ہیں۔  لہذا امام کے ولی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے مربوط ہوتا ہے اور دوسری طرف اللہ کے بندوں کا سرپرست اور مولا ہوتا ہے۔

جب ہم "اشهد ان علی ولی الله" کہتے ہیں تو یہ کلمہ ہم کو امام اور اللہ سے نزدیک کرتا ہے۔  چونکہ اس کے ذریعہ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے معین امام اور ولی کی سرپرستی میں دے رہے ہیں۔اب ہمیں اس راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرنا چاہئے انہیں رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ "گناہ" ہے ۔ اگر ہم ولایت کا کلمہ پڑھتے ہیں اور گناہ پر گناہ بھی کرتے ہیں تو یہ کلمہ صرف زبانی ہے اور عمل میں ہم اللہ اور اپنے امام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

امام مہدی عج اللہ کی طرف سےحاکم  ہیں یعنی اللہ کی تمام مخلوقات کے لئے حکم اور فیصلہ کرنے والے ہیں۔ گذشتہ جملے میں کہا گیا تھا کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے ولی ہیں۔ وہاں زمین کے لئے کہا گیاتھا کہ زمین والوں کے لئے امام اللہ کی طرف سے ولایت رکھتےہیں۔ لیکن یہاں حاکم ہونے کی جو بات کہی جارہی ہےکہ:  وَ حَکَمُهُ فِی خَلقِهِ؛ آپ اللہ کی طرف سے تمام مخلوقات پر حکم کرنے والے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ تمام مخلوقات پر حاکم ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ مخلوقات کی بات کا دائرہ بڑا ہے اور زمین والوں کی بات کا دائرہ کم ہے۔ اس لئے کہ زمین کی مخلوقات میں صرف زمین پر رہنے والے آتے ہیں باقی آسمانی مخلوق، نورانی مخلوق، دوسری نامعلوم دنیا کی مخلوقات اس میں شامل نہیں ہوتی ہے۔

 امام مہدی عج  تمام مخلوقات پر حاکم ہیں یعنی آپ تمام فرشتوں، انسانوں، حیوانوں، نباتات، جمادات، ظاہری دنیا، باطنی دنیا، نورانی دنیا، معلوم اور نامعلوم دنیا سب پر، تمام موجودات پر اللہ کی طرف سے حاکم ، حجت اور فیصلہ کرنے والے ہیں اور اللہ کی ہر طرح کی موجودات پر  اس زمانے میں آپ کے حکم اور فیصلہ کو ماننا لازم اور ضروری ہے۔

پیغمبراکرم (ص) کے ارشاد کے مطابق امام زمانہ (عج) ظاہر اور باطن  یعنی ظاہری دنیا اور باطنی دنیا سب جگہ اللہ کے امین ہیں۔ اللہ کی امانت کو اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اللہ کی امانت کیا ہے ؟ اللہ کی امانت کائنات کی ہر چیز ہے ۔ کائنات کے تمام مادی اور معنوی خزانے ہیں۔ وہ امام وقت کے پاس ہے۔ یعنی اللہ کے تمام خزانوں کے وارث اور امانت دار امام زمانہ (عج)ہیں۔ تمام امانتوں اور خزانوں کی چابیاں امام کے پاس ہیں جیساکہ روایت میں بھی آیا ہے کہ جب امام کا ظہور ہوگا تو زمین کے خزانے خودبخود آپ کے سامنے ظاہر ہوجائیں گے۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
سید تعلیم رضا جعفری